جنوبی پنجاب کی حویلیوں میں قید سیاسی جماعتیں

اتوار 4 اکتوبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کاالمیہ قرار دیاجاسکتا ہے کہ آج تک پاکستان میں نظریاتی سیاست یا نظریات پر مبنی سیاسی روئیے پنپ نہیں پائے‘یوں تو کئی سیاسی جماعتیں ا پنے اپنے نظریات کے ساتھ میدان میں آئیں مگر سوائے پیپلزپارٹی (وہ بھی 70سے 90 کی دہائی تک) کو نظریاتی حوالے سے کارکنان میسر نہ آسکے اور نہ ہی عوامی سطح پر پذیرائی مل سکی۔

کہاجاتا ہے کہ فوجی یا سول اسٹیبلشمنٹ کے ادوار میں مسلم لیگ ہی مختلف ناموں سے بچے جنتی رہی مگر جونہی دورآمریت ختم ہوا تو یہ مسلم لیگ بھی باقیوں کی طرح صرف کاغذوں تک محدود ہوگئی۔ مسلم لیگ پاکستان کی بانی جماعت تصورکی جاتی ہے مگر شومئی قسمت کہ ہردور آمریت میں اس سے ہی کھلواڑ کیاگیا۔جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ ہرآمرانہ دور میں مسلم لیگ نے بچے جنے جن میں سے آج دو ایک بچے جوانی کی منازل تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں
نظریاتی سیاست کا ذکر چھڑے تو ذوالفقار علی بھٹو کا نام آتا ہے انہوں نے اپنی پہلی بار جب ”روٹی کپڑا اورمکان“ کانعرہ بلند کیا تو گویا عام آدمی کی بات کرکے وہ ان کے دلوں میں گھرکرتے چلے گئے مگر مابعد یہ نعرہ بھی دھندلاتا چلاگیا۔

(جاری ہے)

ضیا الحق کے دور میں جنم لینے والی مسلم لیگ جونیجو بعد میں کئی حصے بخروں میں تقسیم ہوتی چلی گئی جس کا ایک حصہ ن لیگ کی شکل آج بھی میدان میں موجود ہے‘ خیر ذوالفقار علی بھٹوکے بعد یہ ”اعزاز“ کسی اور کے حصہ میں نہ آسکا ۔ تاہم اس کے بعد کی مروجہ سیاست میں ہرسیاسی جماعت نے اسی نعرے کی تقلید شروع کرتے ہوئے عام پاکستانی شہری کی بنیادی ضرورتوں کومدنظر رکھتے ہوئے نعرے تخلیق کرنا شروع کردئیے مگر کسی بھی جماعت یا سیاستدان مقبولیت نصیب نہ ہوسکی۔

یہاں اگر نظریاتی حوالے سے مستند سیاست کی حامل جماعت اسلامی کا ذکر نہ کیاجائے تو زیادتی ہوگی مگر اس جماعت کی بدقسمتی یہ رہی کہ بہت سے فلاحی منصوبوں اورعملی سیاسی تطہیر کے مراحل سے گزرنے کے بعد یہ جماعت اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہوسکی۔
صاحبو! سیاسی نظریات کی بات کرتے ہوئے سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا تاہم اگر جنوبی پنجاب کے پسماندہ درماندہ اضلاع کاجائزہ لیاجائے تو حویلیوں میں قید یہاں کی سیاست پچاس ساٹھ سال سے وڈیروں ‘جاگیرداروں کی تابع دکھائی دیتی ہے۔

ان کا اثر اس قدر مضبوط ہے کہ پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی ان کے شکنجے میں جکڑی نظرآتی ہیں
دور چاہے مسلم لیگ کا ہو یا پیپلزپارٹی ‘ ق لیگ یا تحریک انصاف اقتدار میں ہوں‘ جنوبی پنجاب کے یہ وڈیرے اسی جماعت کی کشتی کے سوار نظرآتے ہیں۔ یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ”روٹی کپڑا اور مکان“ کے بعد کوئی اور نعرہ لوگوں کے کانوں کو میسر نہ آسکا یاشاید پہنچنے نہیں دیاگیا۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرانتخاب سے پہلی ان حویلیوں پر لگے پرچموں کی حیثیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ بلکہ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ ان حویلیوں کی اونچی اونچی فصیلوں پر بعض اوقات دو مختلف جماعتوں کے پرچم تک دکھائی دیتے رہے۔ ملتان کے قریشی‘ گیلانی‘ گردیزی‘ مظفر گڑھ کے کھر‘ ڈیرہ غازی خان کے کھوسہ‘ دولتانے ‘لیہ کے سیہڑ‘بلوچ ‘سید بھکر کے نوانی‘ شہانی‘ ڈھانڈلہ ‘اترا‘ خنان خیل‘مستی خیل ہوں یا پھر چھینے سبھی اقتدار کی کشتی کے سوارنظرآتے ہیں۔

کہنے کو اس وقت ان سیاسی خاندانوں میں سے اکثریت مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی ہم نوا نظرآتی ہے اور ان کے بھاری بھرکم وجود کی بدولت یہی لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب میں بھی حاوی ہے مگرتاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنوبی پنجاب کے درماندہ پسماندہ اضلاع کے باسیوں کوذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی فتح نہیں کرپایاالبتہ ان علاقوں پر مسلط وڈیروں کی بدولت سیاسی جماعتیں خوش فہمی میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں کہ جنوبی پنجاب پر بھی ان کاہولڈ ہے۔

ن لیگ کے ضمن میں یہاں کے باسی ہمیشہ نظرانداز کرنے کاگلہ ضرور کرتے دکھائی دیتے ہیں
2013کے انتخابی عمل سے قبل جنوبی پنجاب کے شہری علاقوں کے نوجوان تحریک انصاف کے ”انقلاب“ سے متاثر دکھائی دیتے ہیں تاثر یہ پھیل رہاتھا کہ شاید تحریک انصاف جنوبی پنجاب کی حویلیوں میں قید سیاست کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیگی مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ یہ تاثراور خوش فہمیاں غلط فہمی پر مبنی تھا۔

ماضی میں مسلم لیگ ن سے خائف سیاستدان پیپلزپارٹی کارخ کرتے تھے مگر اب یہ ”اعزاز“ تحریک انصاف کے حصے میں آچکا ہے۔ اس کاواضح ثبوت بلدیاتی انتخابات کی صورت سامنے آچکا ہے کہ ماضی میں ن ‘ق لیگ ‘پیپلزپارٹی کی کشتی پرسواری کرنیوالے ان دنوں تحریک انصاف کے سب سے بڑے پرچارک دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روایت حوصلہ مند مگر مخلص کارکنوں کیلئے دل شکنی کاباعث ہے۔

پنجاب کے دورپرے واقع پسماندہ ضلع بھکر جہاں نظریاتی سیاست کا سرے سے وجود نظر نہیں آتا کہنے کو اس ضلع پر ن لیگ کی حکمرانی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 2013کے انتخابات میں کامیاب ہونیوالے چھ میں سے پانچ ممبران اسمبلی آزا د حیثیت سے کامیاب ہوکر ن لیگ کی کشتی پرسوارہوئے۔ ان تمام کاتعلق جاگیردارانہ خاندانوں سے ہے اور جہاں سیاست وراثت کی شکل میں نسل درنسل گردش کرتی دکھائی دیتی ہے۔

چند ہی سال قبل جب تحریک انصاف کا کوئی نام لیوا نہ تھا ایسے میں طبی میدان میں شہرت کے حامل ایک نیک دل ڈاکٹرنثار ملک نے تحریک کاپیغام عام کرنے کی سعی کی اور پھر جب بھرپور انداز میں ضلعی سطح پر تعارف ہوچکاتو روایتی سیاسی گھرانوں نے اس جماعت کو ”اغوا“ کرلیا۔ تحریک کیلئے قربانیاں دینے والے کارکن اب ‘جاگیرداروں کی حویلیوں کے غلاموں کی فہرست سے بھی بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا کہاجاسکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کی حویلیوں نے سیاسی جماعتوں اورسیاست کو قید کررکھا ہے جہاں سے نظریات نام کی کوئی شئے سامنے نہیں آسکتی صرف وہی کچھ نظرآتا ہے جو ڈیرے دار دکھاناچاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :