حج کے انتظامی پہلو

بدھ 30 ستمبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

الحمدللہ اس برس راقم کو حج کی سعادت حا صل ہوئی۔اس بار ہونے والے دو انتہائی سنگین سانحات نے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دِیا ہے۔ آئیے حج کے انتظامی پہلووٴں پر نظر ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اپنے ذہنوں سے مقدس سر زمین پر میزبانی یا مقدس مقامات کے خادموں والی خیالی باتیں نکال دیجئے۔ پاکستان سے سرکاری اور پرائیویٹ اسکیموں کے ذریعے حج پر جانے والے افراد پونے تین لاکھ روپے فی کس سے لیکر بیس لاکھ روپے فی کس تک ادا کر کے حج پر جاتے ہیں۔

خادمین کے گن گانے والے وہ مفت خورے ہیں جو یا تو پاکستانی حکومت کے خرچے پر یا پھر کِسی شاہی حکومت کی خیرات پر مفت کا حج فرماتے ہیں۔
ایئر پورٹ پر لامتناہی انتظار ، امیگریشن کے پیچیدہ مراحل، لائنوں میں گھنٹوں کھڑے عذام حجاج کی بے بسی اور امیگریشن اسٹاف کی آپس کی خوش گپیاں آپ کو دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آئیں گی۔

(جاری ہے)


حسن انتظامات کے قصیدے پڑھنے والے حضرات جان لیں کہ حج صرف آٹھ ذوالحج سے بارہ یا تیرہ ذوالحج تک یعنی پانچ یا چھ دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔

اکثر حاجی بارہ ذوالحج کو مغرب سے پہلے منیٰ سے واپس روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ پانچ چھ دن ہوتے ہیں جب انتظامات کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ اس سے پہلے یا بعد کے دنوں میں عذام حجاج جن ہوٹلوں یا بلڈنگوں میں مقیم ہوتے ہیں وہاں طعام و قیام کے انتطامات کا تعلق حاجیوں کی جیب کے مطابق ہوتا ہے، اس کا حسن انتطام یا قصیدہ گوئی سے کوئی تعلق نہیں۔
نو ذوالحج کو میدان عرفات سے مزدلفہ کا آٹھ نو کلومیٹر کا فاصلہ ”حسن انتطام“ کی بدولت ٹریفک جام کی وجہ سے بسوں پر پونے چار گھنٹے میں طے ہُوا۔


دس ذوالحج کو حاجیوں کی اکثریت حج کے انتہائی اہم رکن طواف زیارہ (طواف افاضہ) کو مکمل کرنے کے لئے رمی جمرات کے بعد خانہ کعبہ شریف کا رُخ کرتی ہے۔ ان حاجیوں کی ” خدمت “ کے لئے انتظامیہ نے کعبہ شریف کے ارد گرد تقریباً چار سے پانچ کلومیٹر کے علاقے کو سہ پہر کے بعد ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کیا ہوا تھا۔ پینتالیس درجہ حرارت میں لاکھوں مرد، خواتین، بوڑھے، مریض، بچے، بیمار گھسٹتے ، گرتے پڑتے آگ اگلتی تارکول والی سڑکوں اور لا متناہی سرنگوں میں چار، پانچ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرکے کعبہ شریف کا طواف اور سعی کرنے آرہے تھے اور اس فریضہ سے فارغ ہو کر واپس جارہے تھے۔

واضح رہے کہ ان حاجی صاحبان میں سے کئی گذشتہ روز منیٰ سے میدان عرفات اور مزدلفہ کا سفر بھی پیدل کر چُکے تھے اور آج صبح کئی کلومیٹروں کا پیدل سفر کرکے رمی جمرات کی تھی۔ قارئین شاید جانتے ہوں کہ رش کی صورت میں کعبہ شریف کا طواف اور سعی مکمل کرنے کے لئے بھی دو سے تین گھنٹے مسلسل پیدل چلنا پڑتا ہے۔
حاجیوں کی ”خدمت “ کے لئے گیارہ اور بارہ ذوالحج کو بھی اسی طرح حرم شریف جانے والی ٹریفک کو دن بھر بند رکھا اور رات سوا گیارہ بجے کے بعد گاڑیوں کو حرم شریف تک آنے کی اجازت دی۔

پینتالیس سے اوپر درجہ حرارت میں لاکھوں مرد، خواتین، بوڑھے، مریض، بچے، بیمار گھسٹتے ، گرتے پڑتے آگ اگلتی تارکول والی سڑکوں اور لا متناہی سرنگوں میں چار، پانچ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرکے کعبہ شریف کا طواف زیارہ یا طواف وداع کرنے آرہے تھے اور اس فریضہ سے فارغ ہو کر واپس جارہے تھے ۔
جمرات کئی منزلہ اسٹرکچر ہے۔ کنکریاں مارنے کے لئے دوسری منزل کو استعمال کرنے والے بذریعہ بس جمرات تک پہنچتے ہیں۔

حاجیوں کی” خدمت “ کے لئے انتظامیہ جب چاہتی ، بس سروس کو کئی گھنٹے کے لئے بند کر دیتی اور حاجی شدید گرمی میں گرتے پڑتے دو سے تین کلومیٹر لمبی چڑھائی چڑھتے اور اترتے ۔ انتظامیہ کی تربیت کے معیار اور صلاحیتوں کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان بسوں پر سوار ہونے کے کوشش میں بھگدڑ کا سما نظر آتا ۔
گیارہ ذوالحج کو کنکریاں مارنے کے بعد جب منیٰ کیمپ واپسی کا پیدل سفر شروع ہوا تو کیمپ کی طرف جانے والے سارے راستے بند تھے۔

لاکھوں افراد کے ہجوم کو مسلسل نامعلوم سمت میں چلایا جارہا تھا۔ اچانک راستے میں ایک جگہ سڑک کو تقسیم کرنے والی دیوار پر کھڑے تین محافظوں نے لوگوں کو رکنے کے اشارے شروع کردیئے ، آگے والے لوگ رک گئے اور مڑ کر اشارے کرنے اور با آواز بلند چلانے لگے تاکہ پیچھے آنے والا ہجوم بھی رُک جائے۔ اس موقعے پر پیچھے سے لگنے والے ایک معمولی سے دھکے سے انتہائی خطرناک بھگدڑ مچ سکتی تھی۔

ہمارے ذہنوں میں گزشتہ روز ہونے والا بھگدڑ کا واقع تازہ تھا۔ تاہم فوراً ہی ان محافظوں نے لوگوں سے چلتے رہنے کے لئے کہنا شروع کر دیا۔ یہاں اگر ایک اور بھگدڑ مچ جاتی تو ذمہ دار کون ہوتا؟
جمرات کے آس پاس کی سڑکوں اور حرم شریف کے آس پاس کی پیدل چلنے والے لوگوں کے استعمال میں آنے والی سڑکوں پر پولیس کی ہوٹر لگی گاڑیاں ” طریق حج“ کی اناوٴسمنٹ کرتی لوگوں کو بار بار کبھی سڑک کے ایک طرف تو کبھی دوسری طرف دوڑنے پر مجبور کرتی نظر آتی ہیں۔

کئی بار حاجی ان گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچتے ہیں۔
حج کے پانچ دنوں میں مکہ کے ٹیکسی، بس ڈرائیوروں کو حاجیوں کی ” خدمت “ کی کھُلی چھٹی ہوتی ہے۔ تین سے چار کلومیٹر کا سفر کرنے کے لئے ٹیکسی والے فی سواری دو سو ریال ( پانچ ہزار چار سو روپے) تک وصول کرتے ہیں۔ اگر آپ فیملی کے چار افراد کے ساتھ حج پر گئے ہیں تو حج کے دنوں میں تین سے چار کلومیٹر طے کرنے کے لئے فی پھیرا ٹیکسی گیارہ سے بائیس ہزار روپے میں پڑے گی۔

اگر بس مل گئی تو اس کا کرایہ بھی پچاس ریال ( ساڑھے تیرہ سو روپے) فی سواری سے شروع ہوتا ہے۔ ان بس اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، سیکڑوں ریال بٹورنے کے علاوہ ان کو حاجیوں کو ذلیل کرنے کی بھی کھُلی چھُٹی ہوتی ہے۔
بقیہ دنوں میں بھی پہلے سے بک کی گئی بسوں میں سفر کرتے ہوئے آپ کو دس بیس ریال ”بخشش “ کی رقم تیار رکھنا ہوگی ورنہ بس ڈرائیور ناراض ہوکر آپ کو کہیں بھی پہاڑوں میں اتار کر غائب ہوسکتا ہے۔


حج کے دنوں میں حرم شریف کے آس پاس دوکانداروں کو بھی کھلی چھٹی ہوتی ہے، یہ چیزوں کی دگنی تگنی قیمت وصول کرکے خوب ” ثواب“ کماتے ہیں۔ انتظامیہ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
ایک بات دھیان میں رہے ، یہاں کی پولیس شاید دنیا کی واحد پولیس ہے جسے عربی کے علاوہ کوئی زبان بولنا نہیں آتی۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ کئیوں کو عربی بھی صرف بولنی ہی آتی ہے ، پڑھنے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

اگر آپ اپنے حج شناختی کارڈ پر عربی زبان میں لکھا ہوا پتہ یا عربی زبان میں چھپا ہوا نقشہ دکھا کر انکی مدد چاہیں تو بھی رہنمائی نہیں ملے گی۔
دس ذوالحج کو عزیزیہ کی ہر سڑک استرے ہاتھوں میں پکڑے موسمی نائیوں سے بھری ہوتی ہے۔ یہ فصلی حجام ہر طرف منہ مانگے داموں ٹنڈیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے یہاں قربانی کے جانوروں کی باقیات کی طرح ، ہر طرف حاجیوں کی زلفیں اڑتی نظر آتی ہیں۔

شہری انتظامیہ کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔
دس اور گیارہ ذوالحج تک مکہ، منیٰ اور عزیزیہ کے کوڑے دان بھر کر ابل رہے ہوتے ہیں اور سڑکوں کے کنارے کوڑے دانوں کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔ صفائی کے انتطامات کرنے میں انتظامیہ ناکام نظر آتی ہے۔
واپسی کے سفر کے لئے پھر ائیر پورٹ پر پیچیدہ مراحل اور لامتناہی انتظار آپ کا مقدر ہوتا ہے۔

راقم تقریباً تیس ملکوں کا سفر کر چُکا ہے مگر حج ٹرمینل پر پروازوں کی روانگی کا جو نظام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک ہی ڈیپارچر گیٹ سے بیک وقت کئی فلائٹوں کی روانگی طے کردی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور، قاہرہ اور استنبول کی پروازیں گیٹ نمبر پندرہ سے روانہ ہونگی۔ مسافروں کو لاوٴنج سے جہاز تک لے جانے کے لئے لاہور والی ایک بس آتی ہے، چالیس پچاس مسافر جہاز کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔

اس کے فوراً بعد اگلی بس قاہرہ والی آجاتی ہے، اور پھر استنبول والی۔ ادھر لاہور والے باقی مسافر انتظار ہی کر رہے ہیں۔ اسی طرح کبھی ایک منزل کی بس آتی ہے تو کبھی دوسری۔ یوں لاہور والی پرواز جس نے آدھے گھنٹے میں بھر کر اڑنے کے لئے تیار ہوجانا تھا وہ بھرنے میں پونے دو گھنٹے لے لیتی ہے۔ یہی حال ہر شہر کی پرواز کا ہوتا ہے۔
اسلام نے حاجیوں کو ہر قسم کی بدزبانی اور لڑائی جھگڑے سے منع کیا ہے، ہر خطے سے تعلق رکھنے والے اکثر حاجی ہر ممکن طور پر در گذر سے کام لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حج کا موقع کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کے بغیر گذر جاتا ہے۔ ورنہ ہر ہر موقعے پر جس طرح حاجیوں کی ” خدمت “ کی جاتی ہے کوئی بھی ہونی انہونی بعید نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :