ایک نئی دیوار…!!

بدھ 30 ستمبر 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

خبر یہ ہے کہ ”بھارت ورکنگ باونڈری پر دیوار بنا رہا ہے“ خبر یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان چین راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے اعلانیہ طور پر متحرک ہے” را“ میں ایک خصوصی ڈیسک تشکیل دے کے کروڑوں کے فنڈز بھی مختص کر دیئے ہیں۔ جبکہ بھارت ضرب عضب آپریشن کو ناکام بنانے کے لئے” بھی “کوشاں ہے۔ عالمی مبصرین کے مطابق ” دیوار“ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے ۔

نیویارک میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد کے مطابق یہ” دیوار“ کسی صورت برداشت نہیں …! ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول پر تعمیراتی کام نہیں ہو گا اور یہ اہم ترین سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔

(جاری ہے)

نشریاتی اداروں کے مطابق پاکستان کی مستقل مندوب نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سکیورٹی کونسل کے صدر کو اس سلسلے میں خط لکھا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اسے سرکاری دستاویزات کی حیثیت دی جائے۔

پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری ہے، شمالی وزیرستان میں تمام دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کر دی ہیں۔ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور یہ معاملہ تمام بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جائے گا۔ پاکستان اپنے داخلی معاملات میں بھارتی مداخلت کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھرپور طریقہ سے اٹھائے گا۔

پاکستان ہر سطح پر کشمیری عوام کا بنیادی حق یعنی حق خودارادیت کا مسئلہ اٹھاتا رہا ہے اور اٹھاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مشن میں پاکستانی سفیر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باوٴنڈری پر بھارتی خلاف ورزیوں کے خلاف سلامتی کونسل میں اپنا احتجاج اور تحریری شکایت درج کرا چکی ہے۔ سیکرٹری خارجہ بار ہا فرما رہے ہیں کہ پاکستان لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باوٴنڈری پر کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا جبکہ مغربی سرحدوں پر بڑی تعداد میں اس کی افواج دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے تعینات ہیں تاہم بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے پاکستان کو لائن آف کنٹرول پر الجھانا چاہتا ہے۔

بھارت کے جارحانہ رویے کے باوجود پاکستان بھارت سے محاذ آرائی کی بجائے تعاون کے جذبے پر مبنی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت تو مسئلہ کشمیر کو سمجھنے سے انکاری ہے۔ وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اس اٹوٹ انگ میں شمار کرتا ہے۔ اس تناظر میں دونوں ملکوں کے مابین ایک اور جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

ایسی جنگ ہوئی تو بلاشبہ دونوں ممالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ جس کا قصور وار سرا سر بھارت ہو گا۔قائد اعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر پر لشکر کشی کا حکم دیا تھا۔ جنرل گریسی قائد کے حکم کی تعمیل کرتے تو مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا۔ اس وقت جنرل گریسی فیلڈ مارشل آکن لک کے زیر کمانڈ تھا۔ گریسی نے اس وجہ سے کشمیر پر قبضے سے گریز کیا۔ تاہم گریسی کے بعد ایوب خاں آرمی چیف بنے اس وقت تک قائد اعظم انتقال فرما چکے تھے۔

مزید برآں آنیوالے حکمرانوں میں مسئلہ کشمیر پر قائد جیسی کمٹمنٹ نہیں تھی۔ اس لئے مسئلہ کشمیر جہاں تھا وہیں ہے اور اس کے باعث پاکستان کے لئے حالات گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ان کی تحریک میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو چکا ہے۔قارئین محترم عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیاامانو نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے ”حفاظتی نظام“ کی تعریف کی ہے۔

عالمی ادارے کے سربراہ نے پاکستان کے تعاون کو بھی سراہا اور کہا کہ پاکستان گذشتہ 40 برس سے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے بہتر اقدامات کر رہا ہے۔ ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ جو وزیراعظم مودی کے ہمراہ نیویارک دورہ میں موجود ہیں نے پاکستان کی طرف سے ورکنگ باوٴنڈری پر دیوار بنانے کے الزام کو مسترد کیا ہے۔بھارت کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران کشمیر کا مسئلہ اٹھایا تو اس کا معقول جواب دیا جائے گا۔

کشمیر پر بیان آیا، تو ہم اس کا جواب دیں گے۔ امریکی کمپنیوں کا بنیادی زور اس بات پر ہے کہ سرمایہ کاری کی سمت میں ہندوستان صحیح قدم اٹھا رہا ہے، لیکن اسے بعض خاص اقدامات کرنے اور تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وکاس سوروپ کا کہنا تھا وزیر اعظم نے بہت صاف گوئی سے بات کی۔عید کے بعد کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت نے عید پر بھی پاکستانی سفارتی عملے کو نئی دہلی میں محصور رکھا، چھٹیاں اجمیر شریف، جے پور، آگرہ اور شملہ میں گزارنے کی اجازت نہیں دی۔

سٹاف کی نقل و حرکت پر پابندی لگائے رکھی۔پاکستانی ہائی کمشن کے سٹاف نے عید کی چھٹیوں کے دوران اجمیر شریف، جے پور، آگرہ اور شملہ کا سفر کرنے کے لئے درخواست دی تھی لیکن حکام نے درخواست مسترد کر دی اور ہائی کمشن سٹاف کو دہلی نہ چھوڑنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ اس سے پہلے پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کو بھی ہائی کمشن کے حکام سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :