غم میں ڈوبی عید

پیر 28 ستمبر 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

طبیعت کی حسا سیت بھی بڑی عجیب شے ہے۔انسان کا انسانوں پر ظلم ہوتے دیکھتے، کسی کو پریشانی کی وادیوں میں گھومتے دیکھتے ، مخلوق خدا کوکئی کئی دنوں سے فاقہ کشی کا عذاب سہتے دیکھتے، کسی بھی لمحے ،کچھ دیر تک نارمل زندگی گذارنے والا انسان کچھ ہی دیر میں اضطراب کے سمندر میں ڈوب کر ڈپریشن کی موجوں کی نظر ہو جا تا ہے اور پھر ان سے زور آزمائی کرتے اور لڑتے بمشکل نارمل زندگی کی طرف واپس آتا ہے۔

میرا تعلق بھی انہی لوگوں کے قبیلے سے ہے جنہیں دن کئی بار اس کیفیت سے گذرنا پڑتا ہے۔
کئی عرصے تک یہ کیفیت طبیعت میں مایوسی اور اداسی کا زہر گھولتی رہی لیکن ایک اللہ والے کے مشورے کے مطابق کہ جب بھی اس کیفیت میں مبتلا ہو تو فوراََاپنے آس پاس نظریں گھوماؤاور اپنے حلقہ احباب میں جو لوگ امید کی دولت سے مالا مال ہیں اور جسے یہ تقسیم بھی کرتے ہیں کہ پاس چلے جاؤ ، کچھ ہی دیر میں مایو سی اور نا امیدی اپنی موت آپ مر جائیں گی اور پھرجس کے نتیجے میں امید اور یقین کی دولت سے سر فراز ہو جاؤ گے، پر عمل کر نا شروع کیا ہے ان کیفیات سے نکلنا بہت آسان ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)


قارئین !اللہ جی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ ایسے دوست عطا کئے ہیں جو امید اور یقین کی دولت سے مالا مال بلکہ یہ لنگر لوگوں کو تقسیم بھی کرتے رہتے ہیں ۔ان میں سے ایک رانا صاحب ہیں جو پولیس افسرہونے کے ساتھ خوبصورت انسان ہیں ۔معصوم بچے کی طرح بھولی سی صورت کے مالک اور ہر وقت مسکراہٹ کو چہرے پر سجائے رکھنے والے یہ میرے ان دوستوں میں شامل ہیں کہ جب بھی میں ان کے پاس جا تا ہوں تو امید اور یقین کے ساتھ ،انسان بننے کا ایک نسخہ کیمیاء بھی ہمراہ لاتا ہوں۔

کچھ روز قبل جب میں ان سے ملنے گیا تو ان کے چہرے پر افسردگی اور اداسی کی کیفیات صاف دکھائی دے رہی تھیں جبکہ ہمیشہ مسکراتا چہرہ بھی کسی مسافر کی طرح کہ جس کا سارا زاد راہ چھین لیا گیا ہو، کی مانند نظر آرہا تھا۔
آخر یہ کیا وجہ بنی کہ ہر وقت لوگوں کو خوش رہنے کا مشورہ دینے والا آج خود افسردگی کی تصو یربنا بیٹھا ہے؟ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایاکہ آج میں اپنے ایک عظیم محسن اور مربی سے محروم ہو گیا ہوں ، بلکہ میں ہی نہیں وہ سینکڑوں لوگ جن کے سروں پر شیخ صاحب نے ہاتھ رکھا ہوا تھا اور بھوک مٹانے سے لے کر کپڑا، علاج اور تعلیم سمیت ہر ضرورت کا منظور علی مُنگلہ نے ذمہ اٹھا یا ہوا تھا۔

ایک ورکرکے طور پر اپنے کیریر کا آغاز کر نے والے معروف صنعت کار بننے والا یہ شخص الگ ہی دنیا کا باسی تھا۔ ملک کے بد ترین حالات پر بھی اس کے بہترین مستقبل کے حوالے سے پُر امید دکھائی دیتے ۔ میں بھی امید اور یقین کی دولت کو ان کے در سے لیا کر تا تھا۔
قارئین کرام !میں تو ہمیشہ کی طرح اپنے اندر کے اضطراب کو کم کر نے کے لئے ان کے پاس گیا تھا لیکن اس روز انہیں غم اور افسردگی میں دیکھ کر میرا اضطراب بھی مزید بڑھ گیا تھا جسے کم کر نے کی ہر کو شش نا کام و نامراد ٹہر رہی تھی۔

اگلے روز عید کے دن کو خوبصورت بنا نے کے لئے مصنوعی خوشی کو پانے اوردرد کو ٹھکانے لگانے کی سوچوں میں گم تھا کہ نظریں اچانک ٹیلی ویژن سکرین پر جم گئیں جہاں ایک دفعہ پھر دوران حج ،منیٰ میں حاجیوں کی شہادت کی چیختی چلاتی بریکنگ نیوز نشر ہو رہی تھیں۔
اس کے کچھ دیر بعد ہی سوشل میڈیا پر ایک خاص گروہ کی طرف سے جھوٹ پر مبنی تصاویر شئیر کر نے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں ایک بلڈوزر کے ذریعے مرد و عورت کی پرواہ کئے بغیر لاشوں کو ایک ڈھیر کی صورت رکھتے ہوئے دکھائی دیا جا رہا ہے۔

جسے دیکھ کرروح کانپ اُٹھی۔ تھوڑی ہی دیر میں جب ہوش ٹھکانے آئے تو فوری طور پر سعودیہ میں کچھ ذمہ داران اور یہاں موجود حجاج کرام سے رابطہ ہوا تو انہوں نے ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کی۔
اس عظیم سانحے کے بعد اس طرح کی جھوٹی تصاویر شئیر کر نا مسلمانوں کے درمیان انتشار اور منا فرت پھیلانے کی کوشش ہے اور جسے ہم سب ثواب سمجھتے ہوئے، بغیر سو چے سمجھے اور تصدیق کئے اپنے سوشل میڈیا پر شئیر کئے جا رہے ہیں۔ ان جیسے واقعات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اورجس کے نتیجے میں مایوسی اور اضطراب کئی دیر تک انسان کا مقدر ٹہرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے تینوں دن بھی غم کی نظر ہو گئے اور جس کا ہر لمحہ اضطراب میں مزید اضافہ کر تا جا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :