ضلع خانیوال کی سیاست کے بدلتے تیور، کیا رنگ لائیں گے؟

جمعرات 24 ستمبر 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

جوں جوں بلدیاتی انتخابات کے پولنگ ڈے کی تاریخ نزدیک آتی جارہی ہے سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے،ہر یونین کونسل میں سیاسی ڈیرے آباد ہوچکے ہیں،دعوتیں ہورہی ہیں، دیگیں چڑھائی جا رہی ہیں،جگہ جگہ بینر ،پوسٹرز آویزاں ہوچکے ہیں،مختلف سیاسی گروپوں میں جوڑ توڑ بھی جاری ہے،خانیوال کا سیاسی ماحول بھی عروج پر ہے۔اگر دیکھا جائے توضلع خانیوال جنوبی پنجاب کا نقطہ آغاز ہے، اسے عام طور پر ملک کے دوسرے بڑے ریلوے اسٹیشن کے باعث جانا جاتا ہے،غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ضلع کی آبادی 26لاکھ ہوچکی ہے۔

اٹھارہ فیصد آبادی شہری جبکہ بیاسی فی صد دیہاتی ہے۔خانیوال کو 1985ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا،اس کا کل رقبہ 4349مربع کلومیٹر ہے،ضلع کی سرحدیں جھنگ،ٹوبہ ٹیک سنگھ،وہاڑی،لودھراں اور ملتان کے اضلاع سے ملتی ہیں،ضلع کی اکثریتی آبادی پنجابی جبکہ شہری علاقوں میں کہیں کہیں اردو بھی بولی جاتی ہے،ضلع کی آبادی سید،راجپوت ،ہراج،تھراج،ارائیں،کمبوہ ،میتلا،واہلا،ڈاہا،سیال،نیازی،جٹ،سرگا نہ ،ترگڑ،بودلہ،کھکھ وغیرہ پر مشتمل ہے،اس برادری ازم اور محل وقوع کے اثرات سیاست پر بھی ہیں۔

(جاری ہے)

جس کا ذکر بعد میں تفصیل سے کریں گے،پہلے ضلع بھر کی بلدیاتی تقسیم اور ماضی کا جائزہ لیا جائے تو سیاست کو سمجھنے میںآ سانی ہوگی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خانیوال تحصیل 25یونین کونسلز،کبیروالا 34،میانچنوں 29 اور جہانیاں12یونین کونسلز پر مشتمل ہے ہوسکتا ہے یہ تقسیم پرانی ہو ،موجودہ حلقہ بندیوں کے اعداد و شمار مختلف ہوسکتے ہیں۔

خانیوال میں نیشنل اسمبلی کے چار حلقے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ حلقے ہیں۔ماضی میں ضلع کی قومی اور صوبائی نشستوں پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیتتی آئی ہیں،2002ء میں جب ن لیگ زوال کا شکار تھی تومسلم لیگ ق نے اکثریت حاصل کی تھی۔2013ء میں آزاد نشستوں پر جیتنے والے بھی ملکی سیاست کے تیور دیکھتے ہوئے ن لیگ میں شامل ہوگئے،اس وقت تمام نشستیں ن لیگ کے پاس ہیں،یوں سمجھیں کہ اس وقت ضلع بھر میں ن لیگ کا راج ہے۔

خانیوال تحصیل میں قومی نشست پر محمد خان ڈاہا منتخب ہوئے او ر صوبائی نشستوں پر نشاط خان ڈاہا اور چودھری فضل الرحمان ممبر ان اسمبلی بنے جو ن لیگ سے ہی سیاسی میدان میں اترے،ان کے مد مقابل ق لیگ کے رہنما سردار احمد یار ہراج،ان کے بھائی اور رانا محمد سلیم تھے جو بری طرح ہار گئے۔پورے ضلع کی سیاست گروپوں اور برادریوں کے ارد گرد گھومتی ہے،یہاں اس بات کا کوئی فرق
نہیں پڑتا کہ وہ کس پارٹی میں ہے۔

یہاں گروپس کو دیکھا جاتا ہے،لوگ گروپس کو ہی ووٹ دیتے ہیں،شخصیات کو ووٹ دیتے ہیں،خانیوال تحصیل میں ہراج،ڈاہا اور کھگہ گروپ ہیں جو مختلف پارٹیوں میں موجود ہیں،ڈاہے پرانے ن لیگی ہیں،ہراج ق لیگ میں ہیں اور کھگے تحریک انصاف سے بلدیاتی الیکشن میں اپنی قسمت آزمائی کریں گے۔یہاں ہراج اپنی شکست کا بدلا لینا چاہتے ہیں اور ن لیگ اپنی حیثیت برقرار رکھنے پر تلی ہے،تحریک انصاف دونوں کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کیلئے بے تاب ہے۔


اب آتے ہیں کبیروالا کی طرف جو ضلع کی سب سے بڑی تحصیل ہے،یہاں گزشتہ پندرہ سالوں سے ہراج گروپ جیتتا آرہا ہے،بلدیاتی سیاست پر بھی اسی گروپ کا راج رہا ہے،ممبر قومی اسمبلی رضا حیات ہراج ہیں جو مسلسل تیسری مرتبہ ایم این منتخب ہوئے ہیں،ان کے چھوٹے بھائی اکبر حیات ہراج جو سابق تحصیل ناظم بھی رہے ہیں وہ ایم پی ہیں،دوسرے ایم پی اے حسین جہانیاں گردیزی ہیں جو ن لیگ کے رانا عرفان کو شکست دے کرپنجاب اسمبلی تک پہنچے،قومی اسمبلی کی نشست کیلئے بڑا نام سید فخر اما م کا تھا جو سپیکر قومی اسمبلی بھی رہے،ان کو رضا حیات ہراج نے مسلسل تین بار شکست دی ہے ان کی شکست کی وجہ رضا حیات کی قابلیت نہیں ہے،اصل وجہ فخرامام کا بار بار پارٹیاں بدلنا اور اپنے کزن سید خاور علی شاہ سے لڑائی تھی،سید فخر امام جب ممبر قومی اسمبلی بنے تو تب آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں آئے،ن لیگ بنی تو دوسر اور تیسرا الیکشن ن لیگ سے لڑے،2002ء میں ق لیگ بنی تو اس کے کیمپ میں شامل ہوگئے،رضا حیات ق لیگ میں آئے تو فخر اما م پیپلز پارٹی میں چلے گئے،2013ء میں ن لیگ سے حصہ لیا اور ہار گئے،سید فخرامام ن لیگ سے آؤٹ ہوئے تو رضا حیات ان ہو گئے۔

این اے 156کی نشست کیلئے تین امیدوار الیکشن میں حصہ لیتے آئے ہیں،تیسرے ڈاکٹر سید علی خاور شاہ تھے جو کہ تحریک انصاف کے رہنماء ہیں۔ماضی میں سادات کی نااتفاقی کا ہراج گروپ نے خوب فائدہ اٹھایا ہے سادات کا ووٹ بینک تقسیم ہوا تو فتح رضا حیات کا مقدر بنی ،اب 19نومبر کو متوقع بلدیاتی الیکشن میں صورت حال مختلف ہوگی کیونکہ سادات میں صلح ہوچکی ہے اور وہ متفقہ طور پر بلدیاتی دنگل میں اپنے امیدوار اتار چکے ہیں،دوسری طرف رضا حیات ہراج کا گروپ انتشار کا شکار ہے ان کے انتشار کی وجہ دونوں بھائیوں اکبر حیات اور رضا حیات ہراج کی نا اتفاقی ہے،رضا حیات ہراج الیکشن جیت کر تحصیل میں سابق ایم پی اے حاجی غلام جعفر سرگانہ کو لانا چاہتے ہیں جبکہ اکبر حیات اپنی بیگم کے رشتہ دار سکندرحیات دیراج کو تحصیل کا سہرا پہنانا چاہتے ہیں جو یونین کونسل 13ڈی جڑالہ سے چیئرمین کے امیدوار ہیں۔

ہراج گروپ کی طرف سے تقریباً ہر یونین کونسل میں دو ،دو گروپ وجود میں آچکے ہیں،جس سے ہراج گروپ کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا اور تقسیم کی صورت ہراج گروپ کا وہی حال ہوگا جو ماضی میں سادات کا رہا ہے۔
ضلع خانیوال کی تیسری بڑی تحصیل میانچنوں ہے،اگر اس تحصیل کو ن لیگ کا گڑھ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہاں سے ن لیگ کے پانچ ممبران اسمبلی ہیں ویسے بھی یہ علاقہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب مرحوم غلام حیدر وائیں کا ہے اب ان کی اہلیہ مجیدہ وائیں رکن قومی اسمبلی ہیں جو خواتین کی نشست پر منتخب ہوئیں،دوسرے رکن قومی اسمبلی پیر اسلم بودلہ ہیں جو تحریک انصاف کے ضلعی صدر پیر ظہور حسین قریشی اور پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنماء پیر حیدر زمان قریشی کو شکست دے کر قومی اسمبلی میں پہنچے،رانا بابر حسین،مہر عامر حیات ہراج اور ڈاکٹر غزالہ شاہین(خواتین نشست) یہاں سے ممبران صوبائی اسمبلی ہیں۔

بلدیاتی الیکشن میں یہاں سے ن لیگ کے امیدواروں کی جیت یقینی ہے،تحریک انصاف مقابلہ ضرور کرے گی لیکن جیت کے امکانات بہت کم ہیں،باقی تحصیلوں کی نسبت یہاں کا شہری ووٹ ن لیگ کا ہے جبکہ دیہات کا ووٹ تقسیم ہوگا۔اس تحصیل میں دو میونسپل کمیٹیاں میانچنوں اور تلمبہ ہیں دونوں میں ن لیگ کی حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن ہیں۔
ضلع خانیوال کی چوتھی تحصیل جہانیاں ہے جہاں افتخار نذیر اور میتلا گروپ براہ راست انتخابی معرکہ میں شریک ہیں۔

یہاں سے افتخار نذیر ممبر قومی اسمبلی،کرم داد واہلہ اورعبدالرزاق نیازی ممبران صوبائی اسمبلی ہیں، یہاں بھی بلدیاتی الیکشن میں خوب مقابلہ ہوگا۔جہانیاں شہر میں میتلا اور افتخار نذیر گروپ کے علاوہ ایک اور پاور جماعت اسلامی کی ہے جس کے ضلعی امیر ڈاکٹر عمران ہیں،جماعت اسلامی کے دوسرے بڑے رہنماء ہارون الرشید ایڈووکیٹ ہیں جو ٹف ٹائم دینگے۔


اگر 19نومبر کوالیکشن ہوتے ہیں توپورے ضلع میں نتائج خواہ کوئی بھی آئیں ایک بات عیاں ہے کہ یہاں سے ماضی کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا ہے،پیپلز پارٹی کو یہاں پورے پنجاب کی طرح امیدوار ہی نہیں مل رہے جس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کا یہاں پر ایک قوت بن کر ابھرنا ہے،ایسے لگ رہا ہے کہ ضلع میں ن لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔تحریک انصاف دوسری بڑی قوت بن کر ابھرے گی،اس تمام کھیل کانتیجہ کیا آتا ہے اس کیلئے ہمیں 19نومبر کا انتظار کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :