سسکیاں

جمعرات 24 ستمبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

کراچی میں قربانی کے جانوروں کی منڈی دنیا بھر میں اپنی طرز کی واحد اورسب سے بڑی منڈی ہے، کہلاتی تو ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے ،مگر دنیا میں اور کس جگہ اتنی بڑی منڈی لگتی ہے ،جب تک یہ دریافت نہ ہوجائے ،اسی منڈی کو دنیا کی سب سے بڑی منڈی کہنے اور سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ خیر یہ جھگڑے تو چلتے رہیں گے۔ اس منڈی میں ہر طرح کاجانور مل جاتا ہے ، سستا بھی اور مہنگا بھی ، سوکھا سہما دبلا پتلا ، لاغر اور کمزور بھی ، موٹا تازہ ،ہٹا کٹا بھی ، گھاس پھوس کھانے والا بھی ،پستہ بادام ، مربے اور مکھن کھانے والا بھی ،گرم علاقوں میں رہنے کے عادی بھی،اور ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے بھی،اتنے سارے انسانوں کو دیکھ کر بدکنے والے بھی اورا نسانوں کے میلے میں خوش باش جھومنے والے بھی۔

(جاری ہے)

سیدھے سادے اور معصوم بھی انتہائی نخرے باز اور غصیلے بھی، انسانوں کے اشاروں پر چلنے والے بھی اور موٹے موٹے رسے تڑا کر بھاگنے والے بھی ، اصلی دانتوں ،سینگوں اور دموں والے بھی اور نقلی دانتوں کی مسکراہٹ دکھاتے ،نقلی دم گھماتے اور جعلی سینگوں کا رعب جماتے بھی۔
مویشی منڈی کیا ہوتی ہے پورا ایک جہاں ہوتا ہے، چھوٹا سا ایک شہر سمجھ لیں، رات کے کسی پہر جائیں یا دن میں کسی وقت شور شرابا، چہل پہل ، بھاگ دوڑ آمد ورفت جاری رہتی ہے ،بھاؤ تاؤہوتے اور ٹوٹتے نظر آتے ہیں، سودے بنتے اور بگڑتے دکھائی دیتے ہیں، لڑائی جھگڑے کو تیار لوگ بھی ملتے ہیں اور صلح صفائی کروانے اور معاملہ سجھانے بجھانے والے بھی۔

یہاں جانور بیچنا بھی بڑی فن کاری ہے اور خریدنا اس سے بھی بڑھ کر فن کاری ۔چوروں اور ڈاکوو ں کے ساتھ نو سر باز اور بہروپیے بھی سرگرم عمل ہوتے ہیں اور قانون کی نمائندگی کرنے والے ۔
####
نیب کا کہنا ہے تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے ،لیکن سندھ حکومت ایک ہاتھ سے بچانا چاہتی ، یہ اچھی بات نہیں، ہم نے غبن ، دھوکا اور بد عنوانی میں ملوث افراد کو پکڑوانے کے لیے سندھ حکومت سے فرمائش کی لیکن اس نے اپنے ایک بہت بڑے افسر منظور قادرکاکا کو رخصت کے نام پر باہر بھجوادیا، ہمیں بندہ چاہیے ،اسے بلوا کر ہمارے حوالے کیا جائے ورنہ ہمیں بلا وجہ انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑیں گی۔

دو ہاتھ سے تالی بجانے کا خواہش مند نیب لین دین اور بھاؤ تاؤ کر کے معاملات حل کرنے پر یقین رکھتا ہے،یہ انداز ملک کی اعلی عدلیہ کومنظور نہیں ،نیب کا خیال ہے بھاگتے چور کی لنگوٹ بھی مل جائے غنیمت ہے چور ر کو ہم نے کیا کرنا ہے ، عدلیہ کا خیال ہے چور بھی ہمارے پاس رہنا چاہیے تاکہ ہم اسے اس کے کیے کی سزادے سکیں ، یہ جھگڑے چل رہے ہیں دوسری جانب سندھ حکومت بد عنوانی اور غبن میں ملوث افسران تک ہی معاملہ برقرار رکھنے کی خواہش مند ہے ،سیاست دانوں اور لیڈروں کو پردے کے پیچھے ہی رکھنا چاہتی ہے۔

ورنہ پورے ایوان میں صاف ستھرا شاید ہی کسی کو ملے۔
####
پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے آنکھوں کا رنگ اور لہجے کا ڈھنگ تبدیل کیا تو افغان حکومت پر کپکپی طاری ہو گئی ، افغان صدر اشرف غنی نے میاں نواز شریف کو فون کیا اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ، خیال کیا جاتا ہے کہ امریکا نے بھی اشرف غنی کو ہلایا جلایا ہو گا، با با ہوشیار ہو جاؤ ، ان کا موڈ بگڑے گا ، تو تمھارے ساتھ ہمارے اور ہمارے لے پالکوں کے پول بھی کھلیں گے ،بہتر ہے ، موڈ بحال رکھو اور بات چیت سے ہی ان کو مطمئن کر دو، معاملہ میل ملاقات اور بات چیت تک ہی رکھنا ،ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں، تم ہمارے پیارے ہو ، وہ ہماری مجبوری ہیں۔


####
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ عدالت عظمی کے فیصلوں کو اجزا ء اور ٹکڑو ں کی شکل میں ماننا اور ناپسند اجزاء کو چھوڑنے کا سلسلہ بند کر دیا جائے ، ہر حکم من و عن تسلیم کیا جائے۔ میاں جی کی رائے سر آنکھوں پر ، ہوتا تو یہی آرہا ہے ، خود میاں جی کی پچھلی حکومت میں یہی ہوتا رہا ہے اور موجودہ حکومت میں بھی یہی ہو رہا ہے، من مرضی کی باتیں ہپ ہپ ہوجاتی ہیں اور ناپسند فیصلوں پر یا تو بڑی جی داری سے تھو تھو کی آوازیں گونجتی ہی یا کم از کم پہلوتہی تو ضرور ہی ہوتی ہے ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پھر کچھ فیصلوں کو سیاسی قرار دیا جاتا ہے ، کچھ کو انتقامی کارروائی سمجھا جاتا ہے ،کچھ کے پیچھے قومیت کار فرما لگتی ہے یازبان و علاقے کا ٹھپا محسوس کیا جاتا ہے ۔ قانون بے چارہ کسی فائل میں منہ چھپا کے روتا رہتا ہے اس کی سسکیاں سارا جہاں سنتا ہے سوائے حکم رانوں اور ان کے چیلوں چمانٹو ں کے ، اگر یہ میاں جی کو کچھ اچھا خیال آہی گیا ہے تو اس پر سب کو کاربند رہنا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :