بھارت کے مسلمان اور پاکستان

منگل 22 ستمبر 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اس میں شک نہیں کہ مضبوط پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی حفاظت کا نگہبان ہوتا مگر پاکستان جس ویژن پر بنا تھا اور جس کی آبیاری کی بنیاد پر بھارت کے مسلمانوں کا پشتی بان ہو سکتا تھا اُس ویژن کو قائد اعظمکے بعد پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ قائد اعظم  کا ویژن یہ تھا جو انہوں نے۲۶/مارچ ۱۹۴۸ءء چٹاگانگ میں فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا“ قائد  کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظامِ زندگی نافذ کیا گیا جو پاکستان کو متحد اور مضبوط بناسکتا تھا نہ وقت پر آئین بنایا گیا اور نہ ہی قائد اعظم کی مسلم لیگ اپنے آپ کو مضبوط بنا سکی کہ وہ یہ کام کرتی بلکہ اب تو بقول شخصے الف سے ی تک اس کی شاخیں بن چکی ہیں۔

(جاری ہے)

شاید اسی لئے قائد نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بہر حال وقت گذرتا گیا اور بھارت کے مسلمان ہندوؤں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے کچھ مدت تک تو پاکستان کے اخبارات مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ بر تاؤ پر اپنے طور پر احتجاج کرتے رہے جس میں پاکستان کا سب سے بڑا اخبارہمیشہ پیش پیش رہتاتھا مگر اب جب وہ پرنٹ کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا میں بھی ٹاپ پرتھا اس پر دولت اور جھوٹی ناموری کی ہوس سوار ہوئی ۔

امن کی آشا جیسے پروگرام شروع کئے اور بھارت کے مظلوم مسلما نوں کے لیے احتجاج کر نا تو درکنار ان کو بھول ہی گیا۔ ملک کی مسلح افواج کے ایک اہم جنرل کے خلاف اس کی تصویر لگاکر جھوٹی خبر آٹھ گھنٹے تک نشر کرتا رہا۔ نظریہ پاکستان پر قائم رہنے والے پاکستانی اخبارات اب بھی بھارت کے مسلمانوں پر مظالم پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔پاکستانی حکمران تو دو قومی نظریہ بھول ہی گئے اور وہ آلو پیاز کی باتوں میں دل بہلاتے رہتے ہیں اور گذشتہ پاک بھارت مذاکرات میں پاکستان کے کور ایشو کشمیر کا ذکر کرنے کی بھی جرأت نہ کر سکے اور اپنے اوپر دہشت گردی کاجھوٹا لیبل سجاتے واپس پاکستان آئے۔

بظاہر تو پاکستان میں۲۰۱۳ء کے الیکشن میں یہ جیتے ہیں مگر نہ جانے کون سی نا معلوم طاقت نے تیسری بار انہیں ۲/۳ مجارٹی دلا دی تاکہ وہ اُس نا معلوم طاقت کے ایجنڈے پر کام کریں۔الیکشن سے کچھ دن پہلے امریکہ کے سفیر کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ پاکستان کی بڑی پارٹیوں نے انہیں انشورنس دلائی ہے کہ وہ الیکشن میں امریکہ مخالف باتیں زیر بحث نہیں لائیں گیں بلکہ روشن پاکستان کی باتیں کریں گے۔

الیکشن کے نتائج سے کچھ وقت پہلے نواز شریف صاحب کے منہ سے یہ جملے نکلے تھے کہ مجھے۲/۳ مجارٹی چاہیے۔تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلوقات میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر دباؤ ڈالا رکھا ہے کہ بھارت کو بڑا مان لے، دو قومی نظریہ کو بھول جائے۔ کشمیر کا معاملہ بھی بھول جائے۔ بھارت میں پاکستان جتنے مسلمان آباد نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

امریکہ نے پاکستان میں ہمیشہ دو قومی نظریہ کی مخالف جماعتوں کی مدد کی ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کو کبھی بھی مقبولیت نہیں رہی اور سروے رپورٹز ۸۰/فی صد مخالفت ریکارڈ کرتی رہیں ۔اللہ بھلا کرے پاکستان کی فوجی قیادت کا، پاکستان کی خاموش اکثریت کی نمائندگی کرتے ہوئے اُس نے بھارت کو آنکھیں دکھائیں اور کشمیر کو پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا کہا بھارت کی طرف سے کولڈ اور گرم تعقب پر جواب کے لئے تیار رہنے کی باتیں کیں۔

جہاں تک بھارت کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ۷۰/ سال سے سیکولرپارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرتے رہے ہیں سیکولرپارٹیاں ان کے ووٹ سے جیت کر ان کے مسائل سے پہلو تہی کرتی رہیں۔ گورنمنٹ میں اُن کی آبادی کے مطابق نوکریاں نہیں دی جاتیں۔ جب وہ کاروبار کرتے ہیں تو ان کی دوکانوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔دہشت گرد مودی نے صوبے کا سربراہ ہوتے ہوئے ۲۵۰۰/ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا تھااسی مسلمان دشمنی پر ہندووں نے اُسے بھارت کا وزیر اعظم بنا دیا یعنی دو قومی نظریہ کو زندہ کر دیا اورسیکولروں کو شکست دے دی۔

بھارت کے سیکولر آئین کے باوجود مسلمانوں کواِن کے مذہبی روایات کے مطابق زندگی گزرانے کی سہولت نہیں دی جاتی۔ مساجد کو ڈھایا جا رہا ہے۔ تاریخی بابری مسجد کو ڈھا دیا گیا وہاں پر مندر بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔”گھر واپسی“ کے نام پر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ذبردستی کوششیں کی جاتی ہیں۔یوگا اورسوریانمسکار کے معاملے میں مسلمانوں کی غیرت کو للکارا جاتا ہے۔

ان حالات میں صوبہ حیدر آبادسے ایک پارٹی کل ہند مجلس اتحاد مسلمین(ایم آئی ایم) مسلمانوں کے حقوق کی نمایندہ بن کر اُبھری ہے۔ اس کے سربراہ بیرسٹرجناب اسدالدین اویسی صاحب بھارت کے مسلمانوں کو اپنے بل پر انتخابات لڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ان کے بھائی اکبر مسلم مسائل پر اتنی بے باکی سے بولتے ہیں کہ مسلمانوں کو محض ووٹ بینک سمجھنے والی سیکولر پارٹیاں کے لیڈر بغلیں جھانکنے لگے ہیں۔

مسلمانوں کے عقائد پر پابندی لگنے پر دونوں بھائی نے ہندوؤں کو للکارا۔یعقوب میمن کی پھانسی کے خلاف بھی کھل کر بولے۔مسلمان نوجوان ان کو اپنا نمائندہ مانتے ہیں ان کی بات سنتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔یو ٹیوب پر پڑی ہوئی اویسی بردران کی تقریریں ڈاون لوڈ کرتے ہیں ان کو شیئر کرتے ہیں یہ تقریریں دور دراز تک سنی جاتی ہیں۔کل ہند مجلس اتحاد مسلمین جو عرف عام میں ایم آئی ایم کے نام سے مشہور ہوئی ہے نے۲۰۱۷ء کے انتخابات میں اپنے دم خم کے ساتھ اترنے کا اعلان کیا ہے۔

سیکولر پارٹیوں کی نیندیں اڑ رہی ہیں۔ان کا روایتی مسلم ووٹ بینک منتشر ہوسکتا ہے۔اتر پردیش میں حکومت عوامی سطح پر میٹنگیں،جلسے اور ریلیاں نکالنے کی اجازت نہیں دے رہی جس پرایم آئی ایم کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے عدالت کا درواز ہ کھٹکھٹایا ہے۔ایم آئی ایم کا نعرہ ہے”جے میم اورجے بھیم“ مسلم ووٹ کے ساتھ ساتھ دولت ووٹ میں بھی نقب لگ سکتا ہے۔

ایم آئی ایم بنیادی طور پر حیدر آباد کی پارٹی ہے جو ۱۹۷۴ء سے لیکر اب تک حیدر آباد کی لوک سبھا کی سیٹ پر قابض رہی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر بولنے پر بھارت کی سب پارٹیاں ایم آئی ایم کی مخالف ہیں۔ کانگریس کی پریتی سندے نے ایم آئی ایم کو غدار پارٹی کہااور اس پر پابندی لگانے کا کہا۔ راشٹریہ جنتا دل کے لالو پرساد یادو نے کہا آر آر ایس ایم آئی ایم کو فنڈ دیتی ہے۔

سیکولر پارٹیوں نے ایم آئی ایم کو بی جے کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ شیوسینا کے سنجے رادت ایم آئی ایم کو سانپ اور اویسی برادران کا سنپو قرار دیتے ہیں۔وشو ہندو پریشد کے پروین تو گڑیا تو اویسی بی جے پی کا کتا کہتے ہیں۔ بی جے پی کے ساکشی مہاراج اویسی کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ہندو مہا سبھا نے اویسی کا سرکاٹ کر لانے والے کو دس لاکھ روپے دینے کااعلان کر دیا ہے۔

بھارت کی سیاسی پارٹیوں نے اویسی کو ہرانے کے لیے مسلم لیڈروں کو الرٹ کر دیا ہے۔اویسی مسلم ووٹ کے ساتھ ساتھ دلت ووٹوں کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں۔ان کے جے میم اور جے بھیم کے نعرے نے حیدر آباد کے ساتھ مہاراشٹر میں بھی کافی شہرت حاصل کر لی ہے۔مہارشٹر میں اسمبلی کی دو سیٹوں کے علاوہ اورنگ آباد کے بلدیاتی انتخاب میں ایم آئی ایم نے سیکنڈ لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری ہے اور یہ پوزیشن مسلم دولت ووٹوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

مسلم نوجوان کہتے ہیں کہ انہیں ایسا لیڈر چاہیے جو کھل کر مسلمانوں کے مسائل بیان کرے اور ان کو حل کرے۔اسد الدین اویسی مسلم مسائل کی ترجمانی کرنے والے لیڈر ہیں ۔ حکومت وقت سے آئین و قانون کی روشنی میں حق مانگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یو ٹیوپ پر ان کی تقریریں سنی جاتی ہیں اور شیئر کی جاتی ہیں ۔
قارئین! ہم نے بھارت کی اخبارات سے بھارت میں اُبھرتی ہوئی ایک مسلم پارٹی ایم آئی ایم کی کہانی سنائی ہے اگر مسلمان اور دولت بھارت میں یک جان ہو جائیں تو دونوں کی مشکلات دور ہو سکتیں ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ کٹر ہندو ذہن رکھنے والی پارٹیوں کی ناجائز مخالفت کی داستان سنانے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ امت مسلمہ کے بھارتی حصے کی ممکنہ کامیابی کو آپ کے ساتھ شیئر کروں ۔اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :