زندگی اور خواہشات کے دائرے!

بدھ 16 ستمبر 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ترجمہ-: "زمانہ کی قسم (جس کی گردش انسانی حالات پرگواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے(کہ وہ عمرعزیزگنوارہاہے)۔ سوائے ان لوگوں کے جوایمان لے آئے اورنیک عمل کرتے رہے اور(معاشرے میں) ایک دوسرے کوحق کی تلقین کرتے رہے اور(تبلیغ ِحق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب وآلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے"۔
"چارمذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا، انسان کے لئے خسارے ،نقصان اورسراسر گھاٹے کا موجب ہے۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخص اِن صفات سے خالی ہے، یا کسی قوم نے،یادُنیابھرکے انسانوں نے کفر،بدعملی اورایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اوربندگی کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیاہے"۔
طمع و لالچ اوردُنیا کی آسائشوں کے حصول نے ہمیں اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اس چکر میں ہم اندھے ہوگئے ہیں، حلال حرام کی تمیز بھی بھول گئے،یہاں تک کہ ہم نے اپنے آپ کو بھلادیااور موت اوراللہ رب العزت کے سامنے جوابدہی سے بھی غافل کردیاہے۔

(جاری ہے)

کبھی ہم نے سوچا کہ ساری محنت جس دُنیا کے حصول کے لئے کررہے ہیں۔کیا یہاں پر ہم نے ہمیشہ رہنا ہے؟ کیا ساری دولت ہمارے ساتھ جائے گی؟ کیا اس دولت سے ہم خوشی اور سکون خرید سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں ۔نہ تو کسی نے ہمیشہ اس دُنیا میں رہنا ہے، مال واسباب یہیں دھرے کا دھرا رہ جائے گا اورخوشی و سکون تو اللہ نے رکھا ہی اپنی یاد میں ہے۔
اپنے مفاد کے لئے ہم ہرروز لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔

اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ کرتے ہیں،ادویات جوانسانی جانوں کوبچانے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان میں کھلم کھلا ملاوٹ کی جارہی ہے۔ تیزاب ملاادرک،مردہ جانوروں کی آنتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا کاروبار سرعام ہے،دودھ میں جراثیم زدہ،غلیظ اوربدبودار پانی کی ملاوٹ کسی سے پوشیدہ نہیں،کیمیکل زدہ لہسن زہریلے مشروبات،سرخ اینٹوں کو پیس کر مرچوں میں ملایا جارہاہے،یہاں تک کہ مردہ مرغیوں وجانوروں،گدھوں،کتوں،خنزیرجیسیحرام جانوروں کے گوشت کا دھندہ بلاخوف وکراہت کیا جارہا ہے۔


ہم اپنی پوری زندگی صرف دولت سمیٹنے میں بسرکردیتے ہیں۔پہلے تو دولت کے حصول میں صحت گنوا بیٹھتے ہیں پھر صحت کے لئے اپنی دولت گنوابیٹھتے ہیں اورہماری خواہشات ہیں کہ پوری ہونے کانام نہیں لیتیں۔ہم جوکچھ اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اورجن کاموں میں ہم مشغول رہتے ہیں یہ سب کچھ اس محدود مدت عمر میں ہی وقوع پزیرہوتا ہے۔وقت تیزی سے گزرجاتا ہے اورجب احساس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تووقت تھا جوگزرگیاپھر پچھتاوے کے سوا ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہتا۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ "تمھیں بہت زیادہ مال و دولت کی طلب نے غافل کردیا،یہاں تک کہ تم نے اپنی قبریں جادیکھیں۔"(سورة التکاثر، آیات1-2)
حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اللہ کو بھول کر،اُس کے احکامات کی کھلم کھلا نافرمانی کرتے ہوئے اپنی ترقی اورخوشحالی کا پیمانہ یہ مقررکرلیا ہے،کہ ہم کسی بھی طرح سے زیادہ سے زیادہ دولت وآسائشیں حاصل کریں۔

ہم اس دُنیا کے پیچھے آنکھیں بندکرکے،اپنے انجام سے بے خبر دوڑرہے ہیں۔ امیربننے اوردوسروں سے مقابلہ اورتفاخرکے چکرنے ہمارا سکون، راحت ا ورچین سب چھین لیا ہے۔موت،قبر،آخرت اوریوم ِحساب توہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں۔
بات صرف اورصرف ادراک اورسچ ماننے کی ہے۔ہم ناشکرے اورنادان انسان سبق نہیں سیکھتے ۔قران ِکریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:"کہہ دو کہ زمین میں چل پھرکردیکھوتوسہی کہ کس طرح اللہ نے ابتدا میں پیدائش کی پھر اللہ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا۔

اللہ ہرچیزپرقادرہے۔جسے چاہے عذاب کرے،جس پرچاہے رحم کرے،سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔(سورئہ عنکبوت )
انسان اس عارضی دُنیا کے لئے تو حریص اورجلدباز ثابت ہواہے ، مگرزندگی کے اصل مقصد اورآخرت کے معاملہ میں انتہائی غافل۔صحیح کہاجاتا ہے کہ انسان کو مال ودولت اورجوہرات سے بھراایک پورا جنگل مل جائے تو بھی وہ خوش اورراضی نہیں ہوگا،بلکہ سوچے گا کاش ایسا ہی ایک اورجنگل مل جاتاتوکتنا اچھا ہوتا۔

آج ہمیں دُنیا کی حرص و لالچ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم نے زندگی کا مقصد مال ومتاع اکھٹا کرنا سمجھ لیا۔ابن الرومی کہتاہے "حرص نے آدمی کی بدبختی کا سامان کردیاہے، حرص ہے ہی بدبختی کاذریعہء"۔
اماالانبیاء ﷺطمع و لالچ سے بچنے کے لئے یہ دعافرماتے تھے:"اے اللہ!میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جونفع نہ دے،ایسے دل میں جوخشیت الٰہی سے خالی ہو اورایسے نفس سے جو سیر نہ ہو۔

"(صحیح مسلم)
میرے ایک مہربان دوست نے، ایک قدیم قصہ، بذریعہ پیغام مجھے بھیجا،جوہمارے اس موضوع کے عین مطابق ہے،لکھتے ہیں کہ" ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہوکرایک شخص کویہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا،وہ زمین اس کو الاٹ کردی جائے گی۔اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ہو گیا تو اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔

یہ سن کراس شخص نے دوڑ نا شروع کردیا، دوڑتے دوڑتے دوپہرہوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکرشروع کردینا چاہیے،مگرپھر لالچ نے غلبہ پایا اور سوچا کہ تھوڑا سا اورآگے سے چکر کاٹ لوں، پھرواپسی کا خیال آیا تو سامنے ایک خوبصورت پہاڑدیکھا۔ اس نے سوچا کہ اس کو بھی اپنی جاگیرمیں شامل کرلینا چاہیے۔
الغرض واپسی کا سفرکافی دیر سے شروع کیا۔

اب واپسی میں یوں لگتا تھا، جیسے سورج نے اس کے ساتھ مسابقت شروع کردی ہے۔وہ جتنا تیز چلتاپتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رہا ہے۔سہہ پہرکے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے ،جیسے پگھلنا شروع ہو گیاہے۔اُس شخص نے اپنی رفتار اورتیز کردی۔ کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نظرآرہا تھا۔اب وہ اپنی لالچ کو کوس رہا تھا،مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔دوڑتے دوڑتے اُس کا سینہ درد سے پھٹنے کے قریب تھا۔

مگر وہ تھا کہ بس سرپٹ دوڑے جا رہا تھا۔آخرسورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے سٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کررہے تھے۔یو ں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کردیا۔جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ اس کی قبر بنائی گئی اور قبر پر کتبہ لگا یا گیا ، جس پر لکھا تھا"اس شخص کی ضرورت بس اتنی ساری جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبر ہے۔

"
آج ہماری خواہشات کے دائرے بھی بہت بڑے ہوگئے ہیں اورہم سب ایسے ہی دائرے مکمل کرنے کی تگ و دو میں ہیں اوران کی تکمیل میں ہم حیوانیت اوردرندگی کی حدوں سے بھی گر گئے ہیں۔مگر یہ دائرے اُسی وقت مکمل ہوں گے جب زندگی کا سورج غروب ہوگا،پھرہمارے پاس سوائے پچھتاوئے کے کچھ نہیں ہوگا۔اصل سمجھدارتووہی ہے،جس نے اپنی خواہشات کے دائرے کوضرورت کی حدتک محدودرکھتے ہوئے،ہرحال میں اپنے رب کی خوشنودی اوررضاکومقدم سمجھا۔ چلئے واپسی کی سوچ اورفکرکرتے ہیں،اس سے پہلے کے بہت دور جاپہنچیں اورواپسی میں دیر ہوجائے۔ اللہ ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے "آمین"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :