ملاوٹ

بدھ 16 ستمبر 2015

Hussain Jan

حُسین جان

دو بکرئے آپس میں بیٹھ کر باتیں کر ہے تھے کہ دیکھو اس دفعہ ہمیں کون خرید کر لے جاتا ہے، ایک نے کہا کوئی بات نہیں پورا سال گدھے ،گھوڑئے کھانے والے سال میں ایک دفعہ ہمارا گوشت بھی کھالیں گے تو کئی فرق نہیں پڑتا عید کے بعد تو بیچاروں نے پھر گدھوں کا گوشت ہی کھانا ہے۔ یہی حال بڑئے جانوروں کا ہے ، اس سال اُن میں بھی کوئی بے چینی نہیں پائی جاتی کہ اُن کو بھی سکون ہے کہ پورا سال تو عیش ہی کرنی ہے، اب تو بہت سے قسائی بکرا زبح کرنا بھی بھول گئے ہیں شائد گدھے زبح کر کر کے وہ خود کو بھی گدھا ہی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔

اسی لیے تو اب ان سے بکرئے زبح نہیں ہو تے۔
پاکستانیوں نے بھی عجیب قسمت پائی ہے کبھی مرئی ہوئی مرغیوں کا گوشت کھاتے ہیں تو کبھی مردار کھا جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے معدئے اتنے مظبوط ہو چکے ہیں کہ پتھر ،لوہا بھی ہضم کر جاتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ساتھ اُن کے گاؤں جانا ہوا جہاں پر اُس نے خالص دودھ پینے کو دے دیا بس پھر کیا تھا ہم تھے اور لیٹرین تھی۔

اس سے اندازہ لگایا کہ اب ہم خالص چیزیں کھانے کے قابل نہیں رہے۔ کبھی گھروں میں دیسی گھی کے پراٹھے بنا کرتے تھے جو بہت شوق سے کھائے جاتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کبھی غلطی سے بھی دیسی گھی کا پڑاٹھا بن جائے تو کھایا نہیں جاتا۔ مرچوں کے بھی کیا کہنے جب تک اس میں اینٹ پیس کر ملا نہ دی جائے کھائی نہیں جاتی۔
ہمارے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب پاکستانیوں کو دالیں اور سبزیاں کھانی چاہئیں ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جن کے خیال میں دالیں اور سبزیاں خالص آتی ہیں یا سستی ملتی ہیں، تو بھائی مرغی کے گوشت سے تو زیادہ دالیں مہنگی ہیں اور وہ بھی ملاوٹ شدہ۔

سبزیوں کو بھی ایسی ایسی کھاد ڈالی جاتی ہے جو انسانوں کے لیے مضر صحت ہوتی ہے۔ ہمارئے ہاں کسی بھی چیز کو اچھی طرح دھو کر کھانے کی عادت نہیں جس سے بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں مگر اچھا ہے کہ اس سے ڈاکٹر حضرات کا کاروبار چل رہا ہے ورنہ بیچارئے بے روزگار ہو جائیں گے۔
کچھ لوگوں کو مرغیوں کے بارئے میں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ اسے اپنے سامنے زبح کرواتے ہیں ،کیا کبھی کسی نے وہ ڈرم اندر سے دیکھا ہے جس میں مرغی کو چھری پھیرنے کے بعد بے دردی سے پھینکا جاتا ہے۔

کیا کبھی کسی نے مرغی والی دُکان کی حالت دیکھی ہے یوں لگتا ہے کہ سالوں صفائی نہیں ہوئی۔ مگر پھر بھی ہم فخر سے کہتے ہیں کہ میں تو ہمیشہ مرغی اپنے سامنے ہی زبح کرواتا ہوں۔ ہمارئے ہاں کچھ بڑی بڑی کمپنیوں نے پیکینگ کے نام سے گوشت مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے۔ صاف ستھری پیکنگ کو دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ گوشت کی کوالٹی بہت بہتر ہو گی ، مگر یہ کس حالت میں ہوتا ہے کسی کو کچھ خبر نہیں۔


ہمارے ملک میں قاعدہ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے ہیں جنہوں نے آبادی کے بیچوں بیچ ایک عدد غیر قانونی باڑا بنا رکھا ہے ،جہاں پتا نہیں بھینسوں کو کیا کیا کھلاتا ہے اور زیادہ دودھ لینے کے چکر میں کیسے کیسے ٹیکے ٹھوک دیتیا ہے۔ لیکن مزئے کی بات کوئی اسے پوچھنے والا نہیں کہ کیا یہ دودھ لوگوں کہ لیے بہتر ہے۔

دوسری طرف حکومت نے قربانی کے جانوروں کو شہروں سے باہر رکھنے کا بھی عزم کر رکھا ہے مگر یہ صاحب تو سر عام قربانی کے جانوروں کا بھی سودا کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارئے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں عوام کو اُلو بنانے میں پاکستانی سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ الیکشنز سے پہلے کہا کرتے تھے ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے مگر الیکشنز کے بعد تو خالص دودھ تک مہیا نہیں کر سکے۔

رمضان میں سستے بازار لگا کر انتہائی گھٹیا قسم کی چیزیں بیچی جاتی ہیں۔ کسی نے کہا پاکستانیوں کو ملاوٹ سے پاک چیزیں مارکیٹ میں دستیاب ہوں گیں۔ کسی نے کہا چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی کسی نے بڑھک ماری کے ریلوئے کا نظام ٹھیک کر دو ں گا کسی نے کہا پی آئی اے کو اپنے پیروں پر لے آؤں گا۔ لیکن افسوس کی بات کوئی بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کر پایا ۔

پاکستانی عوام کی حالت آج بھی ویسی ہے جیسی 47 میں تھی، لوگ آج بھی غربت سے تنگ ہیں سکولوں کی فیس دینے کے لیے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ، اگر کوئی بیمار ہو جائے جو اُس کا علاج کروانا ممکن نہیں ، سرکاری ڈاکٹروں کو ہرٹالوں سے فرصت نہیں لوگوں کو مرنے کے لے چھوڑ جاتے ہیں ۔
ڈینگی کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے ، جو لوگ ڈینگی پھیلانے کے زمہ دار ہیں اُن پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

شہروں کے اند ر جن لوگوں نے غیر قانونی باڑئے بنا رکھے ہیں وہ ڈینگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں مگر رشوت خور سرکاری اہلکار روپوں کے چند ٹکڑوں کے لے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ یہ تو اللہ کا احسان ہے کہ پاکستان میں کبھی کوئی بیماری وبا کی شکل اختیار نہیں کرتی اگر ایسا ہو جائے تو یہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگ مریں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔

ہمارے سرمایا کار روس کے انقلاب کو لال انقلاب سے نتھی کرتے ہیں ، لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ روس میں انقلاب کیوں آیا تھی اُس کی وجوہات بھی یہی تھیں کہ عوام حکمرانوں سے بہت تنگ تھے، ملاوٹ زدہ چیزیں مارکیٹ میں بکتی تھی، روزگار کے مواقع نہیں تھے۔ تعلیم ناپید تھی، غریب کے پاس علاج کروانے کی سہولت موجود نہیں تھی جبکہ اشرافیہ ہر طرح کی عیاشیوں میں مبتلا تھی ۔

یہی حال موجودہ پاکستان کا ہے ، ہر برائی میں ہم اول ہیں۔ حکمرانوں نے اگر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا ہو تو اُس کے لیے بھی کروڑوں خرچ کر دیے جاتے ہیں ۔ کہ صاحب نے ہیلی کاپٹر پر جانا ہے جس کے پیٹرول کا خرچہ بھی سیلاب زدگان نے ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عوام ٹھیک نہیں ، اگر حکمران ٹھیک ہوں تو عوام خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن کیا کریں گدھے کھا کھا کر ہماری مت ماری گئی ہیں اچھے برئے کی تمیز ہم میں باقی نہیں، ایک دوسرئے پر کیچڑ اُچھالنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں، ملاوٹ اور حرام چیزیں کھانے سے ایمان بھی کافی کمزور ہو چکے ہیں ۔ اکڑاکڑ کر چلنے والے گدھے بھی کسی دن زبح ہو جانے ہیں اور کسی کو پتا بھی نہیں چلنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :