جیل، سیاست اور عدالت

بدھ 16 ستمبر 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

اگر آپ اپنا کام نہیں کرسکتے تو کوئی اور کرے گا۔ کام نہ کرنے سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی ان کے متاثرین کہیں تو جائیں گے جہاں ان کی شنوائی ہو، اس پر ناراض ہونے کی بجائے اپنے اختیارات کا استعمال کریں اور مسائل کو ختم کرنے کی روایت کا آغازکریں۔ مگر حکومت میں آنے والوں کی ترجیحات عام آدمی کے مسائل کا حل نہیں، وہ وقت گزارتے ہیں اور پھر لوگ عدالتوں سے آس لگاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی والوں کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار سے اختلاف کیوں پیدا ہوا؟۔ اور آج تک اس کی تلخی کیوں نہیں جارہی۔ وجہ سامنے ہے کہ اپنے حکومتی یا انتظامی اختیارات کو اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ پانچ برس کے دوران کسی ایک ادارے کو بھی اس قابل نہیں بنایا گیا کہ آج اس کی کارکردگی پر فخر کیا جاسکے اور جیالے کسی بحث میں اس کا حوالہ بھی دے سکیں۔

(جاری ہے)


پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹرز نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار کے تحت کیے گئے عدالتی فیصلوں پر نظرثانی کیلئے قانون سازی کی بات کی، اور پھر اس کیلئے سینٹ سے ایک قرارداد بھی منظور کرلی گئی ، اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں، ایسا ہونا چاہیے مگر اس پر اتنا زور کیوں۔؟ ایسے حالات کیوں نہیں پیدا کیے جاتے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ازخود نوٹس ہی نہ لے۔

یا پھر وہ اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے کہ اداروں کی غفلت کسی المیے یا سانحے کو جنم ہی نہ دے جہاں ملک کی سب سے بڑی عدالت کو متوجہ ہونا پڑے۔
بہت سے معاملات ایسے ہونگے جہاں مختلف وجوہات کی بنیاد پر سیاسی حکومتیں کھل کر کام نہیں کرسکتیں، مگر ہزاروں شعبے ایسے ہیں جہاں کسی بھی حکومت کوکسی بھی طرح کی بہتری لانے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوسکتا۔

تعلیم کے شعبے میں بہتری کیلئے کام سے حکومت کو کون روکتاہے ۔؟ صحت کے مسائل کے حل کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے ۔؟ پولیس کے نظام کو درست کرنے کیلئے حکومت اگر کچھ کرنا چاہے تو کون کہے گا کہ نہ کریں ۔؟ سپریم کورٹ میں ایک ازخود نوٹس کیس ملک بھر کی جیلوں سے متعلق بھی زیر سماعت ہے۔ عدالت عظمی کے چیف جسٹس نے ایک قیدی خاتون کی درخواست پر نوٹس لیا تھاجس نے جیل کی بدترین حالت سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ کس قدر غیر انسانی سلوک اور ماحول میں اسیری کی زندگی گزار رہی ہے۔

عدالت کو ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے بھی عرصہ گزر گیا مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملک کی جیلوں کی حالت کچھ بہتر ہوئی۔؟ سرکار کے وکیل اور صوبائی افسران عدالت میں پیش ہوتے ہیں، نئی رپورٹ جمع کراتے ہیں، فائلوں کا پیٹ بھر تے ہیں، کہتے ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا اورمزید ’بہتری‘ لانے کیلئے مہلت مانگتے ہیں، عدالت وقت دیتی ہے اور سرکاری بابو خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔

جتنا جوش وخروش عدالت کے اختیارات کو کم کرنے کیلئے دکھایا گیا، اورجتنا وقت سپریم کورٹ کے وسیع ہوتے ہوئے دائرہ اختیار پر ناراضی یا پریشانی پر ضائع کیا گیا اگر اسی قدر جذبے اور اتنے ہی وقت کا استعمال کرتے ہوئے صرف ملک کی جیلوں کی اصلاحات کیلئے کام کیا جاتا تو اس ملک کا ایک مسئلہ کم ہوجاتا، عدالت کو سوموٹو لینے کیلئے جیل نظر ہی نہ آتی اور کسی قیدی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو آئندہ خط لکھنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی۔


کیا کسی صاحب اختیار کو معلوم نہیں کہ ملک میں جیلوں کی کیا حالت ہے، کسی کے علم میں نہیں کہ قیدی کن حالات میں زندہ ہیں اور کس جیل کی کتنی گنجائش ہے اور اس میں کتنے افراد قید ہیں؟۔ یہ مسئلہ دہائیوں سے ہے، اور جس طرح ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اسی شرح کے جرائم کی رفتار زیادہ ہوتی ہے اور جیلوں میں قیدی بڑھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج دوست محمد خان نے جیل اصلاحات مقدمے کی سماعت کے دوران ایک اہم واقعہ سنایا ۔

انہوں نے بتایاکہ جب وہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے ان سے عالمی امدادی ادارے کے وفد نے ملاقات کی۔ وفد نے بتایاکہ وہ پختون خوا میں محفوظ ترین جیل ( ہائی سیکورٹی پریزن) بنانا چاہتے ہیں جہاں خطرناک ملزمان یا قیدیوں کو رکھا جائے گا جس کیلئے قیدیوں کو عدالت لانے لے جانے والے ایسے محفوظ ٹرک بھی فراہم کرینگے جو اندر سے محفوظ طریقے سے بند ہوتے ہیں اور جس کو راستے میں کہیں سے بھی نقصان پہنچا کر کھولا نہیں جاسکتا مگر حکومت اس کیلئے راضی نہیں۔

جسٹس دوست محمد خان کہتے ہیں کہ ان کو آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی کہ جب ہر چیز کیلئے بیرونی امداد لی جاتی ہے تو محفوظ ترین جیل بنانے کیلئے کیوں نہیں لی جاسکتی ۔؟
پختون خوا میں جیلوں کے انتظامی سربراہ جب عدالت میں پیش ہوئے تو ایسے بولے جیسے صوبے کی جیلوں میں قیدیوں کو ہرن کا گوشت کھلایا جارہا ہے، مگر جب سوالات کیے گئے تو جناب نے اعتراف کیا کہ صرف پشاور کی سینٹرل جیل میں گنجائش سے تین گنا زیادہ قیدی رکھے گئے ہیں۔

جیل کے انتظامی سربراہ کو یہ تک علم نہیں تھاکہ ضلعی جیل اور مرکزی جیل میں کیا فرق ہوتاہے۔ پختون خوامیں چار بڑی جیلیں ہیں، پنجاب میں صرف اس سال پانچ مزید جیلیں بنائی گئی ہیں مگر جرائم کی شرح میں کمی کیلئے کیا کیا جارہاہے یہ شاید حکومت کو خود بھی معلوم نہیں۔ پنجاب کے کل ملا کے 35جیلیں ہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سینٹرل جیل ہیں۔ سندھ میں 24جیلیں ہیں اور جسٹس امیر ہانی نے اپنا ذاتی مشاہدہ بتاتے ہوئے کہاہے کہ لاڑکانہ کی جیل کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ نوابشاہ میں ایسی جگہ جیل بنائی گئی ہے جہاں پانی کھڑا ہوتاہے جبکہ علاقہ ڈاکوؤں کی آماجگاہ ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ سندھ حکومت کے افسران فائلوں کا پیٹ بھر کر لاتے ہیں اور ججوں کے پاس ان سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے سینٹرزازخود نوٹس قرارداد پیش کرتے وقت سندھ میں اپنی حکومت کو کارکردگی بہتر بنانے کیلئے بھی کوئی درخواست کردیتے تو شاید قائم علی شاہ سرکار کا نشے سے چور بدن ایک لمحے کیلئے انگڑائی لے لیتا۔


جیل اگر بہترین سہولیات سے بھی آراستہ ہو تب بھی بدترین جگہ ہوتی ہے ۔ مگرجیلوں میں دو قسم کے قیدی ہوتے ہیں، ایک وہ جو سزایافتہ ہوتے ہیں ، جو عدالتوں میں مقدمات کے فیصلوں کے بعد اپنے کیے کی قانونی سزا پوری کررہے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ افراد ہوتے ہیں جن کو انڈر ٹرائل قیدی کہا جاتاہے، یہ وہ ملزمان ہوتے ہیں جو سزایافتہ نہیں ہوتے، ان کے مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں، ان پر جرم ثابت نہیں ہواہوتا، عدالت ان کو بری بھی کرسکتی ہے۔

مگر یہ ملزمان بھی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں قید ستر فیصد افراد ابھی ملزمان کے درجے میں ہیں، ان کے مقدمے عدالتوں میں ہیں، ان پر جرم ابھی ثابت نہیں ہوا۔ ایسے قیدیوں کے حقوق سزایافتہ مجرموں سے بہت زیاد ہ ہیں، یہ بہت سی سہولتیں حاصل کرنے کے حق دار ٹھہرتے ہیں اور پوری دنیا میں ان قیدیوں سے بہتر سلوک ہوتا ہے۔

مگر پاکستان میں ملزم اور مجرم دونوں کیلئے ایک جیسی جیل ہے، دونوں غیر انسانی حالات میں اسیر ہیں۔ اور حکومت نے دونوں نے آنکھیں پھیری ہوئی ہیں، ویسے بھی جہاں آزاد شہریوں کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں قیدیوں کی دیکھ بھال کیلئے کس کے پاس وقت ہے۔
جیلوں کی حالت کیا ہے اور کیوں بہتر نہیں ہورہی اس پر جسٹس دوست محمد خان نے بہت خوبصورت طنزکیا ہے ، کہتے ہیں کہ” اگر جیلیں رہنے کے قابل ہوتیں تو ہمارے سیاستدان جیل جاتے ہی بیمار ہوکر ہسپتال منتقل نہ ہوتے“۔

سیاستدان ہی حکومتوں میں آتے ہیں اور پھر جیل جاتے ہیں مگر ڈاکٹر سے لکھوا کر ہسپتال کے خصوصی وارڈ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ طے ہواکہ محکموں یا اداروں کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا مگر ان کے متاثرین کیلئے عدالتی ازخود نوٹس کے اختیارپر تنقید کی جائے گی اور اپنی سیاست چمکائی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :