قرون وسطیٰ کا یورپ

پیر 14 ستمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

دوسرا جبر معاشی جبر تھا اور اس کا سرغنہ جاگیر دار تھا ۔ جاگیر دار قرون وسطیٰ کی پیداوار ہے ۔ اس کی ابتدا ء اس طرح ہوئی کہ یورپی ممالک ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور دوسری طرف وہ باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما تھے ۔ تیس سال تک مسلسل مذہبی جنگیں لڑی جاتی رہیں ۔برطانیہ نے پانچ بڑی جنگیں لڑیں ، پہلی جنگ اسپین کے خلاف تھی ، دوسری اور تیسری جنگ فرانس اور چوتھی اور پانچویں جنگ جرمنی کے خلاف لڑی گئی ۔

مسلسل جنگوں کی وجہ سے ان کی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی تھی اس مسئلے کے حل کے لیئے انہوں نے جاگیر دار طبقہ پید اکیا ۔ ایک جاگیر دار کو ایک مخصوص علاقہ دے دیا جاتا تھا اور اس کے ذمے تھا کہ وہ بادشاہ کو سالانہ اتنے دام اور جنگ کے موقعہ پر اتنے افراد مہیا کرے گا۔

(جاری ہے)

جاگیر دار اپنے علاقے کا مکمل حکمران تھا ۔روس میں دستور تھا کہ جب زمین بیچی جاتی تو مزارعین کو بھی ساتھ ہی بیچ دیا جاتا تھا ۔

جاگیر داروں کا کام صرف شکار کرنا اور سیر و تفریح کرنا تھا ۔ آہستہ آہستہ یہ جاگیر دار اتنے طاقتور ہوئے کہ انہوں نے بادشاہ کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا ۔ اب بادشاہ اور جاگیر دار میں طاقت کے حصول کے لیئے کشمکش شروع ہوئی ، کسانوں کی بغاوت شروع ہوئی ، اٹلی اور جرمنی میں کسان سڑکوں پر آ گئے اور جاگیر داروں کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا ۔

ابتداء میں جاگیر داروں کو جو جاگیریں عطا کی جاتی تھیں وہ موروثی نہیں ہوتی تھیں لیکن 868ء میں یہ نظام موروثی ہوگیا ۔ جاگیر دار محافظوں کے دستے اور زیورات سے اپنی طاقت کی نمائش کرتے ، ایک عرصے تک یہ نظام چلتا رہا اور باالآخر صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تاجروں اور سرمایہ داروں نے جاگیر داری کی کمر توڑ دی ۔ ہندوستان میں جو جاگیردارانہ نظام تھا اس کی صورت ذرا مختلف تھی اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

قرون وسطیٰ کے اس معاشی جبر کی وجہ سے بھی عوام میں بغاوت کے جذبات نے جنم لیا اور انقلاب کی راہیں ہموار ہو نے لگیں اور آخر میں رہی سہی کسر بادشاہ نے پوری کردی ۔ قرون وسطیٰ میں بادشاہ سیاسی جبر کی علامت تھا ، سولہویں اور سترھویں صدی میں یورپ کے اکثر علاقوں میں بادشاہی نظام قائم تھا ، برطانیہ اور فرانس میں موروثی بادشاہتیں قائم تھیں ، بادشاہ ، چرچ اور جاگیر دار آپس میں ملے ہوئے تھے اور تینوں مل کر عوام کا استحصال کرتے تھے۔

یا تو شوریٰ ہوتی نہیں تھی اگر تھی تو اس میں صرف چرچ ، بادشاہ اور جاگیر دار شامل ہوتے تھے ۔ عوام کی ترجمانی اور دفاع کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ جمہوریت کے افکار پروان چڑھے تو عوام میں اپنے حقوق کا شعور بلند ہوا،ایک طرف بادشاہ ، چرچ اور جاگیرداروں کی لوٹ مار ،فضول خرچی اور عیاشی تھی اور دوسری طرف جمہوری افکاراور علوم کی ترویج و ترقی نے عوام کو اس تکون کے خلاف کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا ۔

مختلف علاقوں میں بغاوتیں ہوئیں اور اس جد وجہد کا آخری پتھر انقلاب فرانس ثابت ہوا جس میں عوام نے اکھٹے ہو کر بادشاہ ، چرچ اور جاگیردار کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیا۔ قرون وسطیٰ اور اس کے بعد کے کچھ عرصے میں یہ تین مختلف قسم کے جبر تھے جنہوں نے یورپی معاشرے میں بغاوت اور تبدیلی کی ایک لہر پیدا کر دی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :