پی ٹی آئی والو۔۔۔۔ تبدیلی کہاں ہے؟

پیر 14 ستمبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

عمران خان فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا میں بہت بڑی تبدیلی لائی ہے۔ سیاہ کو سفید، ظالم کو مظلوم اور چور ،ڈاکو و لٹیرے کو اگر ایماندار کہنا تبدیلی ہے تو ایسی تبدیلی پر ایک نہیں ہزار بار لعنت۔ عمران خان کے پرفریب نعرے سن کر لوگ سمجھ رہے تھے کہ خیبر پختونخوا جیسے صوبے جہاں کے عوام ہر دور میں ظالموں کے ہاتھوں ڈستے رہے میں واقعی تبدیلی آکر ہر طرف انصاف کا بول بالا اور ظالموں کا منہ کالا ہوگا۔

مگر افسوس پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ابھی تک صوبے میں جو تبدیلی لائی ہے اسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگا کر ہمہ وقت استغفار کا ورد کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہمارے جیسے سادہ لوح لوگوں نے یہ امیدیں باندھ لی تھیں کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد اور ایبٹ آباد تعلیمی بورڈ سمیت دیگر تمام سرکاری اداروں کے اندر ماضی کی کرپشن بے نقاب ہونے کے ساتھ چور، ڈاکو اور کرپٹ افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا اور ان اداروں میں پسندو ناپسند اور ذاتی مفادات کے کھلے باب بند کر دئیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

مگر پی ٹی آئی کی تبدیلی نے تو بارھویں منزل سے ایسی چھلانگ لگائی کہ غریبوں کی ساری امیدیں دم توڑنے کے ساتھ سارے ارمان خون کے آنسوؤں میں بہنے کے ساتھ بے موسم توقعات بھی خاک میں مل گئے۔ کرپٹ ،چور اور ڈاکو نما افسروں کو نکیل ڈالنے کی بجائے ہزارہ سمیت صوبہ خیبرپختونخواکے اکثر سرکاری اداروں میں انسانی بلیوں کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کر دیا گیا ہے۔

اعمال بد کے ذریعے ماضی قریب اور بعید میں نام کمانے والے وہ لوگ جن کو کل تک کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتاتھا پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کو آج افسر بنا دیا ہے۔ سونامی پر سوار پی ٹی آئی کے انقلابی کارکن تو بڑے زور و شور سے تبدیلی تبدیلی کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ یہ تبدیلی کہاں آئی۔۔؟ پی ٹی آئی کی طرف سے سب سے بڑا دعویٰ تھانہ کلچر کے خاتمے اور پولیس کا قبلہ درست کرنے کا کیا جارہا ہے لیکن کوئی بتائے تو سہی کہ خیبر پختونخوا کے کس شہر اور کس ضلع میں تھانہ کلچر کا خاتمہ ہوا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تھانہ کچہریوں میں آج بھی لوٹ مار کا بازار گرم اور ایک دو نہیں تقریباً صوبے کے تمام اضلاع کی پولیس کے شیرجوان اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بے لگام ہیں۔غریب کل بھی ظلم کی چکی میں پس رہا تھا، آج بھی ظلم کی چکی غریبوں کی ہڈیوں کے اوپر گھوم رہی ہے۔ ظالم کو کل بھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا اور آج بھی ظالم کے سامنے بات کرنے والا کوئی نہیں۔

انصاف کل بھی بکتا تھا انصاف آج بھی دولت کے بل بوتے پر خریدا جارہا ہے۔ پیسوں سے کھیلنے والے امیر لوگ کل بھی مزے کرتے تھے وہ آج بھی عیاشیاں کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ غریبوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے یا کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی والو سرکاری اداروں میں ایمانداری سے کام کرنے والے غریب ملازمین کی انتقامی یا سفارشیوں کے بدلے پوسٹنگ ، ٹرانسفر سے کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔

جہاں اپنوں کیلئے الگ اور بیگانوں کیلئے الگ پیمانہ ہو۔۔ جہاں انصاف ملنے کی بجائے کنجروں کی طرح سربازار بکے۔۔ وہاں تباہی آتی ہے،تبدیلی نہیں۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا میں اسی تباہی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ماناکہ کرپشن کے خاتمے کیلئے صوبائی حکومت نے ضیاء اللہ آفریدی کوجیل بھیجنے کے ساتھ کئی وزراء کوکابینہ سے الگ کیالیکن ایک الزام توسوات سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایم این اے مرادسعیدپربھی لگاتھا،بہتی گنگامیں ہاتھ دھوناواقعی بہت بڑاجرم ہے لیکن اختیارات کاناجائزاستعمال کرتے ہوئے تین گھنٹوں میں پیپرزدے کرایمرجنسی ڈگری حاصل کرنابھی کوئی چھوٹاجرم نہیں پھرمرادسعیدکے معاملے کومنطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایاگیا۔

خیبرپختونخوامیں انصاف کاپیمانہ اگرایک ہے توپھریہ تضادکیوں۔۔؟جہاں پسندوناپسندکی بنیادپرکام ہونے لگے وہاں ترقی کاپہیہ بھی جام ہوجاتاہے۔تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایسے کتنے لوگ ہیں جنہیں پی ٹی آئی میں موجود مافیاء نے سرعام ڈسا۔سردارشیربہادرکانام لوں۔۔مہابت اعوان کی دردبھری کہانی کاذکرکروں یاپھرمانسہرہ کے خرم خان سواتی سے ہونے والی پی ٹی آئی کی زیادتیوں اوربے انصافیوں کاروناروؤں۔

حقیقت تویہ ہے کہ عمران خان کاانصاف تحریک انصاف کی بے انصافیوں کے تلے دب چکاہے۔جولوگ اپنوں سے بھی انصاف نہ کرسکے وہ غیروں کوکیاانصاف دیں گے،جب اپنے بھی جن کے شر سے محفوظ نہ رہے ان سے پھر خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔۔؟کرپشن کے خاتمے کے نام پرسرکاری اداروں کی نجکاری کرکے غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے سے دنیاکے کسی ملک میں نہ پہلے کوئی تبدیلی آئی ہے نہ اب آئے گی۔

تبدیلی لانے کیلئے دوسروں کے گھرنیلام کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکناپڑتاہے۔پی ٹی آئی والوں کوتبدیلی کاآغازانتقامی سیاست سے نہیں بلکہ اپنے گھرسے کرناچاہئے ۔احتساب کمیشن اورانٹی کرپشن کے صابن سے سب سے پہلے ان لوگوں کودھوناچاہئے جوعمران خان اورپرویزخٹک کے سب سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ ہمیشہ غلطی ان لوگوں سے ہوتی ہے جن سے بڑوں کالاڈپیارزیادہ ہوتاہے ۔

دوم وہی لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی بڑوں سے ہروقت اس لئے چمٹتے رہتے ہیں کہ وہ غلطیوں پرغلطیاں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اپنے ان جرائم کوچھپانے کیلئے وہ پھرہمیشہ بڑوں کاسایہ استعمال کرتے ہیں ۔اس سے پہلے کہ ایک اورضیاء اللہ آفریدی ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ لئے قومی یاصوبائی اسمبلی میں تبدیلی کے چہرے سے نقاب اتارپھینکیں۔ پی ٹی آئی کے کرتادھرتاؤں کواپنی اداؤں اوراناؤں پرغورکرکے تبدیلی کاآغازسرکاری ہسپتالوں اوردیگراداروں کی نجکاری کرکے غریب ملازمین کے منہ سے نوالہ اورغریب عوام سے طبی ودیگربنیادی سہولیات چھیننے سے نہیں بلکہ بنی گالہ اوروزیراعلیٰ ہاؤس سے کرناچاہئے تاکہ صوبے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی کے ذریعے عمران خان کاخواب پوراہوسکے ورنہ پھرعوام تحریک انصاف والوں کوبھی کبھی معاف نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :