پاکستان اور نظر بد

ہفتہ 12 ستمبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈ اہے ۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام سات دہائیوں سے بھارتی ظلم و تشدد کا شکار ہیں ۔
مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔
دشمن نے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر جارحیت کی تو ناقابل برداشت نقصان قیمت اداکرے گا۔
پاکستان کو کئی سالوں سے دہشتگردی اور غیر روایتی جنگ کا سامنا ہے ۔
میڈیا نے دہشتگردوں کا اصل چہرہ بے نقاب کر کے قومی یکجہتی میں کلید ی کردار ادا کیا۔


دہشتگردوں کے مددگاروں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے ۔
پاک چین اقتصادی راہداری مکمل کرنا قومی فریضہ ہے ۔
تمام کوششوں کا محور نوجوان نسل ہے ۔
افغانستان کے ساتھ تاریخی اور خونی رشتے کو توڑنے میں کوئی طاقت کامیا ب نہیں ہوسکتی ۔

(جاری ہے)


افغانستان میں قیام امن کے لئے بھرپورکوششیں کیں۔
اگر آپ ان جملوں کو وزیراعظم محمد نواز شریف کی تقریر کے اقتباسات سمجھ بیٹھے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں ۔

یہ اقتباسات یوم دفاع کی رات آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے خطاب کے ہیں ۔ بلاشبہ ان جملوں کا ہر لفظ قوم اور ملک کی محبت میں گُندھا ہوا ہے لیکن جن موضوعات پر لب کشائی کی گئی ہے وہ مسلح افواج سے متعلق تو ضرور ہیں لیکن کسی جمہوری معاشرے میں آرمی چیف سے اس تقریر کی توقع محال ہے ۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں اس تمہید کے ذریعے آرمی چیف پر تنقید کا نشتر چلانے والا ہوں تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے ۔

قانون قدرت ہے کہ کائنات میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی قسم کا خلا باقی نہیں رہتا اور طاقت تو پھر طاقت ہے ۔ اس کائنات کی آخری اور سب سے بڑی سچائی ! اگر ماضی کی آمرانہ یا جمہوری حکومتوں نے ریاستی ذمہ داریوں سے پہلو تہی یا مجرمانہ غفلت کی ہے تو وہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر انتظامی فیصلے کرنے والی طاقت اپنا فرض ادا نہیں کرے گی تو فوج کو یہ خلا پر کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے ۔

فوج بھی بہرحال اس ملک کا حصہ ہے ۔ اس ملک میں اگربدعنوانی یا فرائض سے پہلو تہی برتی جائے گی خاص طور پر سلامتی کے معاملات میں توریاست کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی پہلے خود فوج کے وجود کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے اور پاک فوج ایک ادارے کی حیثیت سے کبھی بھی خود کو خطرے میں رکھنا پسند نہیں کرے گی۔
میں نے سترہ اگست کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں بھی ذکر کیاتھا کہ پاکستان میں گزشتہ پینتیس برس پرانا PARADIGMبدل دیا گیا ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس PARADIGM کو بدلنے والی طاقت بھی وہی ہے جس نے ستر کی دہائی کے آخر میں افغانستا ن میں روس کے حملے کے بعد افغانستان میں تزویراتی گہرائی کے نظریے کے تحت دنیا بھر کے ” دردمندمجاہدین اسلام “ کو پاکستان میں اکھٹا کیا اور پھر ان کی مدد سے دنیا میں خلافت کے قیام کا خواب دیکھا۔ایسا کرتے ہوئے لیکن اس وقت کی قیادت مستقبل کے مضمرات کا اندازہ نہ کر سکی اورنہ ہی ان خطرات کاجوافغانوں سمیت دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین کو پاکستانی معاشرے میں کھلی چھوٹ دینے سے پاکستانی معاشرے اور ریاست کو لاحق ہوئے اور پھر ایک اذیت ناک حقیقت کی صورت میں اس ملک اور قوم پر گزر گئے ۔

اب لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت پوری طرح اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ ماضی میں معاملات کو جس طریقے سے چلایا گیا اس سے پاکستانی ریاست مزید خطرات میں ڈوبتی چلی گئی ۔ میرے خیال کے مطابق اسی ادراک کے بعد آپریشن ضرب عضب کو شروع کرتے وقت اچھے اور برے باغیوں (طالبان ) کی تمیز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کیا گیا کہ ONCE FOR ALL فارمولے تحت اب ہمہ جہت ”سجدہ سہو“کے ذریعے پاکستانی ریاست کو درست راستے پر ڈال دینا ہی عقل مندی ہے ۔


آرمی چیف کی اس تقریر سے پہلے اور بعد کے کچھ واقعات مثلاََ انتہا پسند ملک اسحاق کا اپنے بیٹوں اور ساتھیوں سمیت مارے جانا،سندھ میں بدامنی میں ملوث ملزموں کی معاونت کے الزام میں بڑے بڑے ناموں کی گرفتاریاں ،کالام فیسٹیول میں آرمی چیف کا خطاب،پاکستان کے اپنے تیارکردہ ڈرون طیارے براق کا دہشت گردوں پر پہلا حملہ (جس کے نتیجے میں دلی سرکار میں بجا طور پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ،کیونکہ کشمیر میں بھارتی ڈرون کو گرانے کے بعد یہ اس کا بہترین جواب تھا)،وزیر اعظم کی زیر صدارت اتحاد تنظیمات المدارس کااجلاس جس میں آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہان بھی موجودتھے اور اس کے بعد نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول اتھارٹی کے غیرمعمولی اجلاس کی کڑیا ں جوڑ کر دیکھا جائے تو آنے والے پاکستان کی تصویر بہت واضح نظر آتی ہے کہ مستقبل کے پاکستانی معاشرے میں نجی مسلح جتھوں یا مذہب کے نام پر قتل و غارت کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔


اوپر ذکر کئے جانے والے واقعات میں سے میری نظر میں دوچیزیں کلیدی اور جوہری اہمیت کی حامل ہیں پہلی اتحاد تنطیمات المدارس کو یہ پیغام دیا جانا کہ وہ اپنی صفوں کا ازسرنو جائزہ لیں اور اگر ان میں کوئی فرقہ پسندی یا مذہب کے نام پرقتل وغارت کرنے والے عناصر گھس آئے ہیں تو ان کی نشاندہی کریں ۔اس کے علاوہ مدارس کی بیرونی امداد کی نگرانی اورنصاب کی از سرنو ترتیب ایسی تبدیلیاں ہوں گی جس سے مدارس سے فارغ التحصیل طلبا معاشرے میں ماضی کے برعکس تعمیری اور مثبت کردا ر اداکر سکیں گے ۔


دوسرا اہم ترین واقعہ پاکستان میں تیار کئے جانے والے ڈرون طیارے براق کا پہلا کامیا ب شکار ہے جس میں انسانیت دشمنوں کے تین بڑے نام جہنم واصل ہوئے ۔براق نے جہاں دہشتگردوں پر میزائل برسائے وہیں مودی سرکارپر بھی یہ خبر سن کے برق گری ہو گی کہ پاکستان اب ریموٹ کنڑول طیارے کے ذریعے دشمن پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھنے والے دنیا کے چند ملکوں کے کلب میں شاندار طریقے سے براجمان ہو گیا ہے ۔

اس سے پہلے دلی سرکار نے ڈرون طیارے کے ذریعے جب پاکستانی حدود میں جھانکنے کی کوشش کی تھی تو وہ اوندھے منہ گری تھی ۔ پاکستان کے عوام اور ریاست کے لئے لیکن اس خبر میں ایک اورقابل اطمینان پہلو بھی ہے کہ اب پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بھی رک جائیں گے کیونکہ پاکستان کی طرف سے دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے بعد امریکہ کے پاس اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔


ایک بات لیکن میرے لئے انتہائی تشویش ناک ہے ۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آج کل جنرل راحیل شریف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں اور انہیں سیاسی نظام کی صفائی سے لے کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر تک کے لئے درخواستیں کی جارہی ہیں ۔جنرل راحیل شریف سے میری کوئی ذاتی شناسائی نہیں، ایک عام رائے ان کے بارے میں یہ ہے کہ اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیشہ ور اور خاندانی سپاہی بھی ہیں ۔

تاحال ان کے بارے میں ایسا کوئی خدشہ موجود نہیں کہ وہ اپنی قانونی اورآئینی حدود کو پھلانگیں گے لیکن خوشامدیوں اور دوست نما نادان دشمنوں کی حرکتیں بلاوجہ انسان کے دل میں وسوسے پیدا کرتی ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب نظام اپنی راہ سے ہٹتا ہے تو یہ جتھے جشن مناتے ہیں لیکن دور کیوں جائیں جنرل مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کروانے کی بڑھکیں مارنے والے آج پرویز مشرف کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں ۔اللہ پاکستان کو نظر بد سے بچائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :