کورے اور گورے

ہفتہ 12 ستمبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

عدالت عظمی کے سبک دوش ہونے والے منصف اعلی نے اردو کا دل خوش کر دیا، بے چاری برسوں سے بلک رہی تھی ، تڑپ رہی تھی، سسک رہی تھی،مایوس ہو چلی تھی، اس کے خیال میں انگریزی نے اس کواندھے کنویں میں گرادیا تھا، وہ لوگ جو کبھی انگریزی سے نفرت کرتے تھے ،اب اردو بولنے کو توہین سمجھتے ہیں۔جو کبھی اردو کے دیوانے ہوتے تھے ،اب انگریزی کے پروانے ہو گئے ہیں بلکہ مستانے ۔

جن کا کام فروغ اردو تھا ،وہ بھی انگریزی کے دل دادہ ہو چکے ۔پڑھے لکھے اس لیے انگریزی بولتے ہیں کہ انہوں نے پڑھی ہے، انہیں آتی ہے تو کیا بولیں بھی نہ ،لکھیں بھی نہ ،بھلا کیوں؟ ان پڑھ اس لیے بولتے ہیں کہ کوئی ان پڑھ نہ کہہ دے ،جاہل نہ سمجھ لے ،گنوار نہ کہہ دے۔کورے ان پڑھ بھی انگریزی بولنے میں شان سمجھتے ہیں،ان کے خیال میں کورے کے کاف پر ایک کش لگا کے وہ بھی گورے ہو سکتے ہیں،کسی دور میں مشہور تھا کہ پیار اردو میں اورغصہ انگریزی میں کیا جاتا ہے لیکن اب تولوگ پیار کے لیے بھی انگریزی کا سہارا لیتے ہیں ڈانٹ ڈپٹ تو خیر ہمیشہ سے اردو میں کرتے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

اچھے خاصے معقول آدمی بات اردو میں کریں گے ،لیکن میسج اور ای میل انگریزی میں کریں گے۔
####
عدالتی حکم آنے کے بعد سے اطلاع یہ ہے کہ ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر کے دفاتر نے خط و کتابت اردو میں شروع کر دی ہے۔ یہ تو خیر کوئی خبر نہیں، خبر یہ ہے اور صرف خبر نہیں بلکہ خوش خبری ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے اپنی اردو ویب سائٹ شروع کر دی ہے، شاید یہ اقدام پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہو، ان کے دل میں اندر تک گھسنے کے لیے ہو، لیکن بہر حال خوشی ہے کہ مائی باپ نے ناک بھوں نہیں چڑھائی بلکہ اردو پر بھی دست شفقت رکھا ہے ۔

پاکستان کی عدالت عظمی کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا ہے ۔ امید ہے اردو خوش ہو گی، پھولی نہیں سما رہی ہو گی ،امید کی جانی چاہیے کہ امریکی سفارت خانے کی تقلید میں پاکستانی ادارے بھی اپنی ویب سائٹیں اردو میں لے آئیں گے۔ لیکن سب سے اصل چیز یہ ہے کہ جو انگریزیت قوم کے دماغ میں گھس گئی ہے اسے کسی طرح نکالا جائے ۔ جب تک انگریزیت نہیں نکلتی انگریزی سروں پر سوار رہے گی۔

کہیں لباس کی شکل میں کہیں چھری کانٹے کی صورت میں۔
####
عدالت عظمی نے حکومت سے کہا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر قومی اور صوبائی قوانین کواردو میں لایا جائے ، جن الفاظ کا اردو متبادل نہیں،یا معروف نہیں ان کا بدل بنایا جائے ،متبادل تیار کرنے کے لیے کسی پریشانی کی ضرورت نہیں، اردو کے قدر دانوں اور مہربانوں نے اس بابت بڑا کام کر رکھا ہے ، بس مزاج کی درستی کی ضرورت ہے، اگر اردو میں انگریزی ٹھونسی جا سکتی ہے تو عربی سے سے بھی مانگے جا سکتے ہیں،عربی ایسے الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتی ہے،یقینا بڑی خوشی سے دے گی ، اردوانا بھی مشکل نہیں ۔

بات دل و دماغ میں پیوست انگریزیت کی ہے ۔وہ نکل جائے تو تین ماہ میں انگریزی کے ساتھ وہ سلوک ہو سکتا ہے جس کی وہ مستحق ہے ، اردو کو وہ شان مل سکتی ہے جو اس کا رتبہ ہے۔
####
چین ہمارا پڑوسی ہے ، دوست بھی ہے خاص طور پر میاؤں حکومت چینیوں کی دل دادہ ہے ،انہیں بھی میاؤں لو گ بہت پسند ہیں ، لیکن چینی زبانی سیکھنے والے کہیں کہیں ملیں تو ملیں ،لیکن انگریزی سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ اتنا ہے کہ گلی گلی مراکز کھلے ہوئے ہیں، کسی کا یہ بہانہ کہ زمانے کے ساتھ چلنا ہے ، کسی کو یہ زعم کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ کے لیے انگریزی جاننا ضروری ، کسی کا یہ خیال کہ تبلیغ کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے۔

ایسا کہنے والے تو بہت ہیں لیکن شاید ایک دو کے علاوہ کسی نے آج تک کسی انگریز کو تبلیغ نہیں کی ہو گی۔
بالکل دیہاتی جنہیں اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی جب کمائی کے لیے لندن وغیرہ جاتے ہیں تو صرف تین ماہ میں فر فر انگریزی بولنے لگتے ہیں،ان میں بہت سے ایسے ہیں جو چند سال باہر گزارنے کے بعد پاکستان میں انگریزی سکھانے کے مراکز میں اونچی تنخواہیں لے رہے ہیں۔

ان کے بھی عیش ، انگریزی کے بھی ، اپنا سر بھی فخر سے بلند کہ قوم کی فلاح کے لیے خوب خدمات انجام دی جا رہی ہیں اور مراکز کھولنئے والوں کی بھی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں۔ ضرور انگریزی سکھانے کے مراکز ہونے چاہییں ، انگریزی سیکھنی اور سکھانی بھی چاہیے ،لیکن ظالمو!بے چاری اردو کو بھی تو کچھ حیثیت دے دو ،قومی زبان قرار دے کر اس کی مٹی پلید کی ، جیسے قومی لباس کا حشر کیا ، قومی کھیل کا بیڑا غرق کیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :