ماحولیاتی آلودگی ،انسانی صحت کے لئے زر رساں

منگل 8 ستمبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

انسان جب تک فطرت کے خلاف لڑتا رہے گا ہارتا رہے گا اس کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اس کے ساتھ چلنا شروع ہو جائے۔دنیا بھر میں قدرتی آفات سے بچاو کے لئے انسانی عقل کا استعمال بروئے کار لایا جاتا ہے جبکہ فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنے کی تدابیر اختیار کی جاتیں ہیں۔سیلاب زلزلے اور دیگر قدرتی آفات کچھ موسموں کے تغیر و تبدل کانتیجہ ہوتی ہیں تو کچھ انسان کی جانب سے فطرتی مظاہر کو ڈسٹرب کرنے سے۔

آپ جنگل کے جنگل کاٹتے جائیں اور توقع کریں کہ قدرتی ماحول نارمل رہے گا کیسے مکمن ہے؟ سیلاب گرمی طوفان بادو بارں صرف درختوں کے کاٹنے کی وجہ سے زیادہ آتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب آتے ہیں اور کئی علاقوں میں عوام کو خشک سالی کا سامنا بھی رہتا ہے۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ ایسا ہر سال ہوتا ہے تو حکومت تباہی اور بربادی کے اس سلسلے کو اب تک روک کیوں نہیں پائی؟
ہر سال عام طور پر جون سے ستمبر تک مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے جاتے ہیں۔

2010ء کی بارشوں کے نتیجے میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں تقریباً اٹھارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ایسا اب تو ہر سالاہو رہاہے۔
تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ کاکہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات میں ایک مخصوص تعلق ہے،۔ اپنے تازہ ترین گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دس سب سے زیادہ غیر محفوظ ملکوں میں شمار کیا ہے۔

پائیدار ماحولیاتی مستقبل سے متعلق عالمی تحقیقی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد ستائیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
لیکن ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ایسے حادثے یکدم پیش نہیں آتے۔ ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف (WWF) کے مطابق پن دھارے یا واٹر شیڈز میں جنگلات کی کٹائی، دریاوٴں کے کناروں پر زراعت، آبادیوں اور دیگر مقاصد کے لیے کی گئی تجاوزات بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی بڑی وجوہات ہیں۔


پاکستان ہیوگو فریم ورک کا حصہ ہے، جس کا مقصد ممالک اور برادریوں کو آفات سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔ سن دو ہزار تیرہ میں حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر رسک رِیڈکشن پالیسی کے نام سے آفات کے باعث ممکنہ نقصانات میں کمی کے لیے ایک لائحہ عمل کی منظوری دی۔اسی رپورٹ میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں صلاحیت بڑھانے کے لیے ہونے والی تنظیمی تبدیلیوں، سیلاب سے بروقت خبردار کرنے کے نظام میں بہتری جیسی پہل قدمی کا بھی ذکر ہے، جو کافی حوصلہ افزا ہے جس پر مذید کام کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔


تحقیق اور جستجو کے ماہرین کا کہنان ہے کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں کہ جس کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ انسان جدیدیت سے نہ صرف پس جدیدیت کے دور میں آ گیا ہے بلکہ انتہائی تیزی کے ساتھ سپرسانک دور کی طرف گامزن ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی بے پناہ ترقی‘ مختلف النوع ایجادات‘ گوناگوں تحقیقات اور انتہائی مفید طبعی‘ کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں سے انسان نے اپنے لائف سٹائل کو ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر اور آسان بنا لیا ہے لیکن معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ان انسانی کاوشوں کے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ماحول کے آلودہ ہونے کا منطقی نتیجہ مختلف خوفناک اور مہلک بیماریوں اور گلوبل وارمنگ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ صنعتکاری کا فروغ‘ جنگلات کا خاتمہ‘ شہروں کا بہت زیادہ بڑھنا‘ اسی طرح غذائی اجناس کی کمی پوری کرنے اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے کھادوں‘ کیڑے مار ادویات‘ فنجائی مار ادویات‘ جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے والی ادویات اور سپرے کا استعمال ہے۔

آلودگی کی مختلف اقسام ہیں مثلاً زمینی آلودگی‘ آبی آلودگی‘ ہوائی آلودگی اور شور کی آلودگی وغیرہ۔ آلودگی خواہ کسی بھی قسم کی ہو اس سے انسانی صحت اور قدرتی ماحول بہت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شور کی آلودگی‘ طبیعتوں میں چڑچڑاپن‘ سردرد‘ تھکاوٹ‘ ڈیپریشن اور بہرے پن کا موجب بن رہی ہے۔
اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات کی وجہ سے زمینی پانی کے ساتھ ساتھ پینے کا پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے۔

نائٹریٹس جو کھادوں سے پانی میں شامل ہوتے ہیں وہ شیرخوار بچوں میں خون کی کمی کی مہلک بیماری (Methemoglo binemia)کا سبب بن رہے ہیں۔ اس بیماری کو عام طور پر بلیو بے بی سنڈ روم ( Syndrome Baby Blue) کہا جاتا ہے۔کیڑے مار ادویات کے علاوہ بھاری دھاتیں مثلاً , Cadmium ، Selenium Mercury, Lead,وغیرہ مختلف انڈسٹریز کے فضلے‘ گاڑیوں کے دھوئیں اور سیوریج کا گندہ پانی سے پانی اور زمین اور فضاء میں شامل ہو کر نہ صرف ان کو آلودہ بنا رہے ہیں بلکہ ہماری فصلوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔

جب یہ فصلیں انسان کھاتا ہے تو ان فصلوں میں شامل دھاتی اجزا معدے‘ جگر اور گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب جسم کے اندر ان دھاتوں کی مقدار بڑھتی ہے تو اس سے جسم کی قوت مدافعت کم ہونے سے مختلف بیماریوں کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بیماریاں دماغ کو بری طرح متاثرکرتی ہیں مثلاً پانی میں سیسے (Lead) کے ذرات بچوں میں دماغی بونہ پن ( Retardation Mental ) کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔


اسی طرح مختلف صنعتوں اور گاڑیوں سے سلفر‘ کاربن اور نائٹروجن کے مرکبات کے اخراج سے فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔فضائی آلودگی کی وجہ فاسل فیول‘ قدرتی گیس‘ کوئلے اورنیل کا مختلف فیکٹریوں‘ کارخانوں‘ تھرمل پاور پلانٹس اور موٹر گاڑیوں میں جلنا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے انسانوں میں تنفس کی بیماریاں دمہ‘ ٹی بی اور الرجی پھیل رہی ہے۔


یو۔ این۔ او کے ایک ذیلی ادارے کے تحقیقی سروے کرنیوالے ماہرین کی ٹیم کے ایک جائزے کے مطابق دنیا میں ہر سال تین ملین لوگ صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کے سبب پیدا ہونے والی تیزابی بارش کی وجہ سے پودوں‘ جانوروں حتیٰ کہ انسان کی شاہکار تعمیرات مثلاً تاج محل آگرہ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ماہرین کے مطابق گرین ہاوٴس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں اضافے سے روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

کرہ ارض پر روز افزوں ہوتی ماحولیاتی آلودگی نے انسان کی محفوظ بقاء کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔اس بات کی ضروت شدت اختیار کر گئی ہے کہ ملکی سطع پر آلودگی کی تمام اقسام کو کم کرنے کے لئے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے ورنہ صحت مند ماحول ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :