یورپی تہذیب کا آغاز

منگل 8 ستمبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یورپی تہذیب کا آغاز یونان سے ہوتا ہے اس لیئے ہمیں یورپ کے ماضی اور اس کے عروج وزوال کو سمجھنے کے لیے ماضی کے دریچوں میں جھانکنا پڑے گا ۔ یورپی تہذیب کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، یونانی دور، یہ دور تقریبا چھ سو قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے اوریہ یونانی تہذیب کے عروج کا دور تھا ۔ رومی دور، اس کا آغاز پہلی صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے ۔

عیسوی دور یا قرون وسطٰی، یہ دور چھٹی صدی عیسوی سے شروع ہو کر پندرویں صدی کے اختتام تک جاتا ہے ۔نشاة ثانیہ کا دور ، اس دور کا آغاز 1453میں ترکوں کے فتح قسطنطنیہ سے ہوتا ہے اور آگے تک جاتا ہے ، تحریک اصلاح مذہب اس دور کی اہم تحریک ہے ۔عقلیت پرستی کا دور ، یہ دور اٹھارویں صدی سے شروع ہوتا ہے اور تاحال اس کے اثرات موجود ہیں ۔

(جاری ہے)

انیسویں صدی کا دور ، یہ دور انقلابات کا دور ہے ، اس دور میں صنعتی اور فرانسیسی انقلابات رونما ہوئے اور یورپی معاشرے نے خوب ترقی کی ۔

بیسویں صدی یا عصر حاضر کا دور ، اس دور کا آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوتا ہے اور دوسری جنگ عظیم سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔ اکیسویں صدی اسی دور کا حصہ ہے اور اس دور کو سائنسی دور یا ایجادات کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ ان میں سب سے پہلا دور یونانی دور تھا،یہ دور چھ سو قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے اور یہ یونانی تہذیب کے عروج کا دور تھا ۔ اس دور میں یونان میں عظیم مفکر اور فلسفی پید اہوئے ، افلاطون ، ارسطو ، سقراط اور بقراط اسی دور کے فلسفی تھے ۔

انسانی تاریخ میں جمہوریت کا دور یونان سے شروع ہوتا ہے اور ہماری موجودہ جمہوریت یونانی جمہوریت کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ اس دور میں ہوتا یہ تھا کہ یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں جن کی آبادی دس ہزار سے ذیادہ نہیں ہوتی تھی ، ہر ریاست کا الگ سے بادشاہ ہوا کرتا تھا ، اگر کسی مسئلے کے بارے میں عوام کی رائے جاننی ہوتی تو عوام کے کو ایک بڑے میدان میں جمع کر لیا جاتا ، وہاں بادشاہ ہاتھ کھڑے کر کے ان کی رائے لے لیتا اور اس طرح عوام کی مرضی معلو م ہوجاتی اور عوام کی مرضی کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دی جاتیں ۔

جب بادشاہ کا انتخاب کرنا ہوتا تب بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ، عوام ایک کھلے میدان میں جمع ہو جاتے ، اپنے پسندیدہ حکمران کے بارے میں ہاتھ کھڑے کرتے جس کے حق میں ذیادہ ہاتھ کھڑے ہوتے اسے بادشاہ مان لیا جاتا ، یہ جمہوریت کی ابتدائی شکل تھے ۔ ہماری موجودہ جمہوریت جسے لبرل جمہوریت کہا جاتا ہے یہ اٹھا رویں صدی کی دین ہے اور اس کا سہرا، وولٹائر، مونٹسکو اور روسو کے سر جاتا ہے ۔

یہ تینوں شخص فرانس کے فلسفی تھے ۔ ان میں سے پہلا شخص وولٹائر تھا جو سترویں صدی کے آخر میں پیدا ہوا ، اس نے فلسفے ، سائنس اور آرٹ پر کئی کتابیں لکھیں اور اس کی تحریروں کا مجموعہ 90جلدوں میں شائع ہوا ، اس نے تمام الہامی مذاہب کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب تحریف شدہ مذہب ہیں اور انسان کا اصل مذہب اس کا فطری مذہب ہے ، اس کا کہنا تھا کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے ۔

دوسرا شخص مونٹسکو تھا جس نے اپنی کتاب روح قانون (spirite of law)لکھ کر کمال کر دیا ، یہ صرف چار سو صفحا ت کی کتاب ہے لیکن اس کتاب کو لکھنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ میں یہ کتاب لکھ کر اس قد رتھک چکا ہوں کہ ا ب ساری زندگی آرام کرنا چاہتا ہوں ۔ اس نے اس کتاب میں تفریق اختیارات کا فلسفہ پیش کیا ، اس کا کہنا تھا کہ جب سارے اختیارات ایک فرد یا ادارے کے پاس آ جاتے ہیں تو اس میں مطلق العنانی آجاتاہے جس سے استحصال کی صورتیں پید اہوتی ہیں ، لہذا اس سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ اختیارات کو مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا جائے ، مثلا قانون سازی کا کام مقننہ(پارلیمنٹ اور سینٹ) کے ذمے ہو ، اس قانون کا نفاذ اور اس کی ترویج انتظامیہ (وزیر اعظم ،کابینہ ) کے ذمے ہو اور قانون کی حفاظت و تشریح کا کام سپریم کورٹ کرے ۔

یہ تینوں ادارے خود مختار ہونے چاہییں ، جب تک یہ سب اختیارات کسی ایک فرد یا ادارے کے پاس ہوں گے تب تک عوام کا استحصال ہوتا رہے گا۔ ہماری موجودہ جمہوریت مونٹسکو کے اسی اصول جمہوریت پر قائم ہے جس میں اختیارات مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم ہیں اور ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتاہے ۔ تیسرا شخص روسو تھا ، اس نے معاہدہ عمرانی کی تجدید اور اس کی تعبیر و تشریح کی ۔

اس نے کہا کہ معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں ایک ایسی حکومت قائم ہونی چاہیئے جس میں عوام کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے ۔ اس کے علاوہ جمہوریت کی کامیابی میں امریکہ کی آذادی اور انقلاب فرانس نے بھی اہم کردار اداکیا ۔ یہ ساری صورتحال اٹھارویں صدی میں پروان چڑھنے والی جمہوریت کی تھی لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے ہم ابھی یونانی تہذیب کی بات کر رہے تھے ۔

یونانی تہذیب اپنے دورکی سب سے کامیاب اور ترقی یافتہ تہذیب تھی ، اس تہذیب نے بڑے بڑے مفکر اور فلسفی پید اکیئے جن کے فلسفیانہ نظریات آج بھی ہماری درسگاہوں میں پڑھے اور پڑھائے جا رہے ہیں ۔ یونانی تہذیب نے انسانوں کو جمہوریت، بت پرستی اور یونانی فلسفہ دیا۔ یونانی تہذیب کے بعد رومی دور کا آغاز ہوتاہے ،یہ دور پہلی صدی عیسوی سے شروع ہوتاہے ، رومی تہذیب نے انسانوں کو جدید تمدن،آئین ، قانون سازی ، شہر بنانے اور بسانے کا فن ، تعمیرات ، آرٹ اورحکومت سازی کے اصول دیئے۔

عیسائیت اور رومی تہذیب تقریبا دونوں ایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد ان کے پیرو کاروں پر خوب ظلم ڈھائے گئے اور یہ دور ابتلاء تقریبا تین سو سال تک جاری رہا ،اس زمانے میں مختلف بادشاہ آئے جنہوں نے عیسائیت پر خوب ظلم کیئے ، ان میں روم کا بادشا ہ نیروبھی شامل تھا جس کے بارے میں جملہ مشہور ہے کہ ” جب روم جل رہا تھا تو نیرو بنسری بجا رہا تھا “۔

تقریبا تین سو سال بعد رومی بادشاہ قسطنطین نے عیسا ئیت قبول کر لی اور عیسائیت رومی سلطنت کے زیر سایہ آ گئی، اب عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ مل گیا اور ایک عیسائی ریاست کی بنیاد رکھی گئی ۔ کہتے ہیں قسطنطین نے عیسائیت صرف اس لیئے قبول کی تھی تاکہ اپنی سلطنت کو وسیع اور مستحکم کر سکے ۔ عیسائیت کو سرکاری درجہ ملنے کے بعد بڑے بڑے امرا اور جاگیر داروں نے بھی اپنی جائیداد کو بچانے کے لیئے عیسائیت قبول کرلی اور یوں عیسائی مذہب پھیلتا چلا گیا ۔

مذہب کو سرپرستی ملی تو چرچ اور کلیسا کے مزاج میں تبدیلی آ گئی ، کلیسا بادشاہ کے مد مقابل آ گیا ، قرون وسطیٰ میں کلیسا اس قدر طاقتور ہو گیا کہ بادشاہ کو چرچ کے ماتحت آنا پڑا ۔ یہ یورپی تہذیب کا وہ سفر تھا جو یونانی دور سے شروع ہوا اور رومی تہذیب سے ہوتا ہوا قرون وسطیٰ میں آ کر ٹھہر گیا ۔ قرون وسطیٰ میں یورپی تہذیب کس قدر زبوں حالی کا شکار تھا اس کا مختصر سا تذکرہ ہم نے گزشتہ کالم میں کیا تھا ۔ اب صورحال یہ تھی کہ قرون وسطیٰ میں یورپی تہذیب اور یورپی معاشرہ مختلف قسم کے جبروں میں جکڑا ہو اتھا ۔ وہ جبر سیاسی ، معاشی اور مذہبی جبر تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :