ایک خط! ذوالفقار عادل کے نام

منگل 8 ستمبر 2015

Naveed Sadiq

نوید صادق

پیارے ذوالفقار عادل! آپ کی کتاب ”شرق مرے شمال میں“ کی اشاعت ایک نئی بحث کا در کھولتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ فیض گھر میں ایک تقریب میں بہت پہلے تہذیب حافی سے ملاقات ہوئی، تہذیب حافی نے آپ کے بارے میں ایک بیان دیا: نوید بھائی! ذوالفقار عادل کی کتاب شائع ہو گی تو نئی غزل کے دعوے داروں کو علم ہو گا کہ نئی غزل کسے کہتے ہیں۔

آپ کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں نے کس طرح کی طبیعت پائی ہے، ہمیشہ دعووں سے گریز کیا۔ سو تہذیب کے منہ سے یہ دعوی سن کر چونک گیا کہ یہ نوجوان کیا کہہ رہا ہے۔لیکن خاموش ہو گیا کہ رائے کا حق تو سب رکھتے ہیں۔ہم قریبی دوستوں نے شاید آپ کے ساتھ ہمیشہ گھر کی مرغی دال برابر والا سلوک روا رکھا۔ ہم سب جانتے تھے کہ آپ ایک شاعر ہو، اچھے شاعر ہو اور بس۔

(جاری ہے)

لیکن ہم نے آپ کو کبھی کسی بڑے کینوس میں رکھ کر نہیں دیکھا تھا۔ ہم سب دوست ایک حلقے کے اندر گردش کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب آپ نے اپنی کتاب کا مسودہ بھیجا کہ اس پر دیباچہ لکھنا ہے تو اس کے مطالعہ کے دوران تہذیب حافی کی بات یاد آ گئی۔تہذیب ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔ مسودہ کے ہر ہر صفحے پر رکنا پڑا۔ دیباچہ لکھنا شروع کیا تو اتنا طویل ہو گیا کہ ّآپ کے مجموعہ کلام کی ضخامت ہر گز ہرگز اس کی متحمل نظر نہ آئی۔

سو دیباچہ بھیجتے وقت آپ کو یہ بھی لکھ بھیجا کہ جو چاہیں، جہاں سے چاہیں، لگا لیں اور یہ طویل مضمون ماہ نامہ فانوس میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔بعدازاں یہ مضمون فیس بک پر لگایا اور پھر برادرم رانا لیاقت نے کمال یہ کیا کہ اس مضمون کو اردو پوائنٹ پر بھی رکھ دیا۔ مضمون پر دوستوں کی آراء سے یہ خیال مزید پختہ ہوتا چلا گیا کہ تہذیب نے بھی ٹھیک کہا تھا اور میں نے بھی ٹھیک لکھا ہے۔

ہمارے کچھ مشترکہ دوستوں کا خیال ہے کہ فیس بک پر سامنے آنے والی آراء کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن سنجیدہ تخلیقات پر آنے والی آراء سنجیدگی کی حامل ہوتی ہیں۔لگے ہاتھوں اس مضمون پر کچھ آراء دیکھتے چلیں:
”یہ مضمون نہایت عمدہ ہے، نئے شعرا کی Recognitionکی جانب پہلا قدم“ (رحمان حفیظ)
”پرانے نقاد نئی نسل کو آسانی سے تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔

اسی لیے یہ کوشش انتہائی شان دار اور اہم ہے۔“ (رحمان حفیظ)
“"Naveed its a very well written essay and wonderful analysis of Zulfiqar Adil's poetry. I thoroughly enjoyed it. Without doubt a very important essay in recognition of contemporary poetry."
(Tayyab Raza Kazmi)
”میری رائے کے مطابق ذوالفقار بھائی کی شاعری مضبوط قوتِ مشاہدہ و مکالمہ سے مزین ہے، بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔“ (اے آر بلال باجوہ)
نعمان ہاشمی نے آپ کو اردو ادب کا اثاثہ قرار دیا تو نصراللہ حارث نے باعث فخر۔

ضامن عباس نے اس مضمون کو اردو پوائنٹ پر ایک خوب صورت اضافہ جانا۔عابد ملک نے آپ کو One of the finest poet of recent timesکہا۔
آپ بھی سوچ رہے ہو گے کہ میں اپنے مضمون کی تعریفیں درج کرتا چلا جا رہا ہوں۔ یعنی اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش، لیکن یہ بھی تو سوچو کہ مضمون کی تعریفیں اس لیے ہو رہی ہیں کہ جس شاعری پر یہ مضمون لکھا گیا، وہ عمدہ و اعلیٰ ہے۔


پھر ”شرق مرے شمال“ میں سچ مچ شائع ہو گئی۔ حالاں کہ آپ کی فطری کاہلی اس کی ہرگز متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔خیر! ہونی کو کون روک سکتا ہے۔جناب رحمان حفیظ نے اپنی درج ذیل رائے کے ساتھ کتاب سے ایک مختصر انتخاب فیس بک پر لگا دیا۔
” ذوالفقار عادل کی کتاب… شرق مرے شمال میں… ایک سنگ میل: لگ بھگ ربع صدی سے ایک کتاب کی اشاعت کا انتظار تھا اور آخر کار کل یہ کتاب ہاتھوں میں آ گئی۔

یہ ذوالفقار عادل کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں صرف غزلیات شامل ہیں۔کسی زمانے میں ذوالفقار عادل نے کہا تھا:
صاحب تمھیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں
ویسے تو اب بھی ہیں، کوئی مر بھی نہیں گئے
آج ہر جانب ذوالفقار عادل کے نام کی گونج ہے اور ہر جا اس کی غزل کا ڈنکا بج رہا ہے۔ کیا خوش قسمتی ہے! اس کتاب کا تقریباً ہر شعر ہی قابل انتخاب ہے…“
پھر تو دوستوں کی طرف سے مبارک باد کا سلسلہ چل نکلا۔


”کتاب کا نام بہت منفرد اور خوب صورت ہے۔“ (ثاقب مجید)
”ذوالفقار عادل بہت عمدہ شاعر ہیں“۔ (خالد علیم)
”یہ واقعی بہت عمدہ کتاب ہو گی“ (سجاد بلوچ)
”ایک غیر معمولی شاعر کابھرپور تعارف ہیں یہ اشعار“ (شہزاد نیر)
”بھرپور تعارف۔۔۔۔ بہت مبارک باد“ (اعجاز گل)
”عمدہ“ (اظہر فراغ)
”اس انتخاب کے لیے آپ کا شکریہ واجب ہوا، کتاب کی مبارک باد ذوالفقار صاحب کے لیے“ (حمیدہ شاہین)
”ایسی کتاب دور حاضر میں نایاب تصور کی جاتی ہے جس میں زیادہ تر غزلیں لائق انتخاب ہوں، اور وسیع پیمانے پر تنقید و تحقیق طلب کرتی ہوں“ (حارث بلال)
”بہت خوب صورت انتخاب“( افضل خان)
”ایک باکمال شاعر کے لازوال اشعار“ (قمر رضا شہزاد)
داد و تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ آپ نے دوسری غلطی کا رتکاب کیا، اب یہ مت پوچھنے بیٹھ جانا کہ پہلی غلطی کون سی تھی۔

تو بات یوں ہے کہ آپ کو تو اپنی دوسری غلطی کا تاحال علم نہیں، میں پہلی کا کیا بتاوٴں۔ چلو، ضد کرتے ہو تو بتا دیتا ہوں۔ پہلی گولی تینوں… معذرت یوں ہی جملہ قلم کی نوک سے سرزد ہو گیا! آپ کی پہلی غلطی یہ تھی کہ آپ نے ظفر اقبال صاحب سے کتاب کا فلیپ لکھوایا۔ اور دوسری غلطی… دوسری غلطی یہ کی کہ… یار تھکن غالب آ رہی ہے، سو باقی باتیں آئندہ۔ اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کوفی الحال میرے خط کی پہلی قسط جانیے! اللہ آپ کو خوش رکھے!(آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :