مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے !

اتوار 30 اگست 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

قران ِکریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:"کہہ دو کہ زمین میں چل پھرکردیکھوتوسہی کہ کس طرح اللہ نے ابتدا میں پیدائش کی پھر اللہ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا۔اللہ ہرچیزپرقادرہے۔جسے چاہے عذاب کرے،جس پرچاہے رحم کرے،سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔(سورئہ عنکبوت )
دُنیا اوردُنیا کی آسائشوں کے حصول نے ہمیں اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اس چکر میں ہم نے اپنے آپ کو بھلادیااور اس بات سے بھی غافل کردیاکہ موت اس زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔


"برونی وئیر(Bronnie Ware)" ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جوزندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔ ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔

(جاری ہے)

مریضوں میں ہرعمر اورہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔
ان میں صرف ایک چیزیکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔

ان کی زندگی کی ڈور ٹوٹنے والی ہوتی تھی۔برونی نے محسوس کیا کہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اوردیگر نرسوں نے ان چنددنوں کی اہمیت کومحسوس نہیں کیا ،مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔اس نے محسوس کیا کہ اگرانسان کویہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دُنیا سے جانے والا ہے توغیرمعمولی حد تک سچ بولنے لگتاہے۔

اپنے گزرے ہوئے وقت پرنظرڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے،اپنی تمام عمر کے المیے ،خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔
برونی نے محسوس کیا،کہ موت کی وادی کے سفر پرروانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طورپرتنہا ہوجاتاہے۔خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلاشخص لوگوں کواپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہے۔

مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔کوئی رشتہ دار،کوئی عزیز اورکوئی ہمدرد۔برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پرجانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں،غم،دُکھ،تکلیف اورمسائل سب کچھ غور سے سن کرمحفوظ کرلے گی۔چناچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کوکمپیوٹر پرایک"بلاگ (Blog)"کی شکل میں مرتب کرنا شروع کردیا۔


اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی،لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پوری دُنیا سے ان کی لکھی ہوئی باتوں کوپڑھنا شروع کردیا۔برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اورمریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔اس نے ایک اوربڑاکام کرڈالا۔یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔اس کتاب کا نام" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے"،"The Top five regrets of Dying" رکھا۔

برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلند ترین سطح کوچھونے لگی۔حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔وہ ایک جیسے ذہنی پل صراط سے گزر رہے تھے۔یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے؟
دُنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں تھا۔ہرایک کی زبان پرتھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کواپنی طرح سے جیتا۔

پوری زندگی کواپنے اردگرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسرکرتا رہا۔
برونی کواندازہ ہوا کہ ہرانسان کے خواب ہوتے ہیں۔مگروہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ، اردگردکے واقعات،حادثات اورلوگوں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلہ کرہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اوریکساں پچھتاوا تھا۔


دوسری بات جو خصوصاََ مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثر حالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انہوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔کام اورغم ِروزگار نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا،جس میں سے دراصل انہیں کافی وقت اپنے بچوں اوراہل خانہ کودینا چاہیے تھا۔

ساری محنت جن لوگوں کے لئے کر رہے تھے،کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکردیا۔کام ان کے لئے پھانسی کا پھندا بن گیا،جس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کواپنے نزدیک ترین رشتوں کے لئے اجنبی بنا دیا۔برونی نے اپنے اکثرمریضوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ انہیں اپنی زندگی میں اتنا کام نہیں کرنا چاہیے تھا کہ رشتوں کی دُنیامیں اکیلے رہ جائیں۔

یہ دوسرااحساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔ اکثر لوگوں نے خود سے گلہ کیاکہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کرپاتے۔بیشترلوگ صرف اس لئے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کرپائے کہ دوسروں کوناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یادوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔ مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔

ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندرقیدرہ گئیں۔کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمرکڑھتے رہے۔ انہیں ہونے والے نقصان کا علم اس وقت ہوا جب بیمار پڑگئے اورکسی قابل نہ رہے۔
چوتھا غم بھی بڑافکرانگیز تھا۔اکثرلوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری،کام،روزگار یاکاروبار میں اتنے مگن ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دورہوتے گئے۔

ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔اپنے اچھے دوستوں کووقت نہ دے پائے،جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔کشمکش ِ زندگی نے انہیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دورکردیا کہ سب عملی طورپراجنبی سے بن گئے۔سالہاسال کے بعدملاقات اوروہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخر وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔

عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثرمریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ان تمام خوشگوار اورغمگین لمحوں کودہراتے تھے،جو وقت کی گردمیں کہیں گم ہوچکے تھے۔اپنے دوستوں کی حس ِ مزاح،عادات اوران کی شرارتوں کا ذکرکرتے رہتے تھے۔برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ فکرنہ کریں،ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔

مگرحقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں تھا۔زندگی میں بھی اورآخری سانسوں میں بھی!
پانچویں اورآخری بات بہت متاثرکن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انہوں نے اپنے آپ کوذاتی طور پرخوش رکھنے کے لئے کوئی محنت نہیں کی۔اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔اپنی خوشی کوجاننے اورپہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔اکثرلوگوں نے اپنی خوشی کوقربان کرڈالا۔

نتیجہ یہ ہواکہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کوظاہری طورپرمتاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔دراصل انہوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیئے۔ وہ یکسانیت کا شکارہوگئے۔تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثردیاکہ وہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اورقہقہوں کو مصلوب کردیا۔

تمام خوبصورت اوربھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپرسنجیدگی اورغیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھالیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھرپورآواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کرجیتے رہے مگراپنی خوشی کی پرواہ نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہدبھی ترک کرڈالی۔نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزارکرسفر ِعدم پرروانہ ہوگئے۔


حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اپنی ترقی اورخوشحالی کا پیمانہ یہ مقررکرلیا ہے،کہ ہم کسی بھی طرح سے اپنے اہل وعیال کے لئے زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کریں۔ہم اس دُنیا کے پیچھے آنکھیں بندکرکے ،اپنے انجام سے بے خبر،بے سُدھ دوڑرہے ہیں۔راتوں رات امیربننے اوردوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہش نے ہمارا سکون چھین لیا ہے۔اپنے مفاد کے لئے ہم ہرروز لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔

ہم اپنی پوری زندگی کواپنے اردگرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسرکرتے ہیں۔ہم ناشکرے اورنادان انسان سبق نہیں سیکھتے ،توبہ کرنیکا اہتمام نہیں کرتے۔پھرایک وقت آتا ہے،کہ ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پرنقش ہوچکی ہیں میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اوربھرپورزندگی سے لطف اندوزہورہے ہوں گے۔

اپنے والدین،بیوی بچوں اورخاندان کووقت دیتے ہوں گے۔اپنے جذبات کواپنے اندراُبلنے نہیں دیتے ہوں گے۔پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔اپنی ذات کی خوشی کوبھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔مگر مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچ المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکارضرورہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اورسچ ماننے کی ہے۔ میری دلی دعا ہے، کسی بھی شخص کی زندگی میں ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :