یورپ کا ماضی

اتوار 30 اگست 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

شپنگلراور ٹائن بی بیسویں صدی کے دو انگریز مورخ ہیں ،اشپنگلر 1880میں پیدا ہو ااور 1936میں وفات پائی۔اس نے دنیا کی آٹھ تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کے بعد”مغرب کا زوال “کے نام سے عظیم کتاب لکھی۔ یہ کتاب تہذیبوں کے مطالعے اور زوال کی داستان پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ شپنگلر نے بتایا دنیا کی ہر تہذیب اپنی زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہے۔

اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں وہ مذہب اور آرٹ کو تخلیق کرتی ہے، جوانی اوربہار کے موسم میں وہ فیوڈل ازم اور جاگیر داری کو فروغ دیتی ہے،عمر کے تیسرے حصے میں اس پر عقلیت پرستی کا رنگ چڑھ جاتاہے اور بڑھاپے میں تہذیب پر مادیت غالب آ جاتی ہے جو بالآخر کسی تہذیب کی موت کا باعث بنتی ہے۔ ٹوائن بی بھی بیسویں صدی کا مورخ تھا اس نے اپنی کتاب ”مطالعہ ء تاریخ “ میں26چھوٹی بڑی تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور شپنگلر اور ابن خلدون کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخ نویسی اور تاریخ کے تجزیے کے لیئے نئے اصول وضع کیے۔

(جاری ہے)

وہ قوموں کے عروج وزوال کو ”چیلنج اور اس کا جواب “ کے اصول کے تحت پرکھتا ہے۔دراصل کسی بھی قوم ،تہذیب اور معاشرے کے لئے ارتقاء ایک لازمی امر ہے اور ہر قوم ،تہذیب اور معاشرے کو ارتقاء کی گاڑی کے سا تھ ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے۔ارتقاء کے لئے جدید دور کے چیلنجز اور ضروریات کا سامنا ایک لازمی امر ہے ، جو قومیں ،تہذیبیں اور معاشرے ان چیلنجز کو قبول کر کے ان کا مناسب حل پیش کر دیں وہ آگے نکل جاتے ہیں بصورت دیگران کے ارتقاء کا سفر وہیں رک جاتا ہے اور ایسی قوم اور تہذیب ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔


اس وقت ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور اکیسویں صدی میں امریکہ اور یورپ کی تہذیب اور معاشرے کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، ان کی ترقی ایشیا اور افریقہ کے اکثرممالک کے لیئے ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جب کسی تہذیب ،قوم اور معاشرے کو ماڈل کی حیثیت مل جائے تو لازمی ہوجاتا ہے کہ اس کا سائنسی ،تہذیبی اور فکری حوالے سے تجزیہ کیا جائے تاکہ معاصر تہذیبیں اور معاشرے اس کی اچھائیوں اور برائیوں کو مد نظر رکھ کر اپنے لیئے راہ عمل متعین کر سکیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ یورپ نے یہ ترقی کیسے حاصل کی ، کیا یورپی تہذیب ابتدا سے ہی ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی یا اس نے بعد میں یہ مقام حاصل کیا ؟ اور اگر یورپ آج ترقی یافتہ ہے تو اس نے کن خطوط پر چل کر ترقی حاصل کی اور اس کے لیئے کون سا منہج اختیار کیا ؟یورپ کی ترقی کو سمجھنے کے لیئے یہ اور اس جیسے چند دیگر بنیادی سوالات بڑے اہم ہیں ۔ یہ بات تو طے ہے پندرویں صدی کے اختتام تک یورپ ترقی کی دوڑمیں ایشیا اور افریقہ سے آگے ہرگز نہیں تھا ،یورپی تہذیب بعض حوالوں سے ایشیا اور خصوصا برصغیر کی اسلامی تہذیب سے بہت پیچھے تھی ،جب برصغیر میں ہر طرف امن،تعلیم،سکون ،روزگار ،ٹرانسپورٹ اور تعلیمی ادارے تھے اس وقت یورپ جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔

امیر اور غریب کا فرق واضح تھا ،معاشرے میں فقیروں ،گداگروں اور دھوکے بازوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں ،غریب افراد کو معاشرے میں کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا ،اعلیٰ طبقہ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتا تھا ،کم آمدنی کی وجہ سے پیٹ بھرکر کھانا نہیں ملتا تھا ،سولہویں صدی میں یورپ کی 85فیصد آبادی گاوٴں اور دیہات میں رہتی تھی ،یہی دیہاتی جب غربت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوتے تو بھیک مانگنے شہروں کی طرف نکل پڑتے تھے ،شہروں میں ان کی آہ وبکا سے نہ صرف محلات والے پریشان ہوتے بلکہ چرچ اور کلیسا بھی ان کے شور و غل سے پریشان ہو جاتے تھے۔

1590کی دہائی ہیں بھوکے اور فاقہ زدہ لوگ سڑکوں پر پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آتے تھے۔شہروں میں ان کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتاتھا جس کی وجہ سے یہ لوگ سڑکوں اور کھیتوں میں سوتے تھے ، کھانے کے لیئے جنگلی بیر یا پودوں کی جڑیں تلاش کرتے تھے ۔ کسانوں کو وحشی اور جانور سمجھا جاتاتھا،چرچ کے اعلیٰ عہدیدار انہیں جہنمی سمجھتے تھے ، یہ کبھی نہاتے نہیں تھے ، صرف بارش کا پانی ان کے نہانے کا سبب ہوا کرتا تھا ، ڈاکو کو ہیرو سمجھا جاتا تھا اور انہیں جو خطاب دیئے جاتے وہ باغی ،مسخرے ، بھانڈ اور کتے جیسے خطاب ہوتے تھے ۔


شہر گندے ہوتے تھے ، جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر تھے ،گلیاں تنگ اور دکانیں گندی ہوتی تھیں ، قصائی دکان کے سامنے ہی جانور ذبح کر کے انہیں لٹکادیتے تھے ،شہروں میں اکثر بدبو اور شور و غل رہا کرتا تھا۔ اکثریت کی غذا دال ہوا کرتی تھی اور جسے گیہوں کی روٹی مل جاتی اسے عیش پرست سمجھا جاتا تھا ،گوشت صرف اعلیٰ طبقے کو میسر تھا ، رات کو روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا ، گلیاں اکثر تاریک ہوتی تھیں ،گھروں میں دھواں بھر جاتا تھا ،اون کا لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے جلد کی بیماریاں پیدا ہو جاتی تھیں ،کپڑے دھونے کا رواج بہت کم تھا ،نہانے کو عیب سمجھا جاتا تھا ۔

عوام تنگ نظراور کم ظرف تھے ، اکھڑ مزاج اور درشت،ماحول میں تشدد غالب تھا ،کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں تھا ، لوگ ایک دوسرے کو آنکھیں نکالتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،معمولی باتوں پر لڑپڑنا اور گھتم گھتا ہوجانا معمول تھا ، تفریح کے لیئے انسانوں اور جانوروں کی لڑائیاں اور مقابلے ہوا کرتے تھے ، لوگوں کی عمریں ذیادہ نہیں ہو ا کرتی تھیں ، بیماریں عام تھیں لیکن معالج اور ڈاکٹر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے تھے ۔

بیماریوں اور فسادات میں لوگ بڑی تعداد میں مر جاتے تھے ، اکثر عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی تھیں ،شرح اموات ذیادہ تھی ، عام طور پر لوگوں کی عمریں ذیادہ نہیں ہوتی تھیں ،امرا 45سے 56سال تک زندہ رہتے تھی جبکہ غریب لوگوں کی عمر اس سے بھی کم ہوتی تھی ، مرد چالیس سال اور عورت تیس سال کے بعد اپنی صحت اور عمر کھو دیتے تھے ۔ عوام میں توہمات کی بھرمار تھی ، روحوں ،جنات اور شیاطین پر اعتقاد تھا، لوگ ڈاکٹروں سے ذیادہ جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔

بیماریوں کے ساتھ لوگوں کو قحط ،خشک سالی اور وباوٴں کا سامنا تھا ، غذا کی کمی تھی ، کاشتکاری کے قدیم طریقے رائج تھے ، لوگوں میں وبائیں اور بیماریاں پھیل جاتی تھیں لیکن ان کا علاج نہیں ہوتا تھا۔ 1347میں جب منگولوں نے کریمیا کا محاصرہ کیا تو انہوں نے پلیگ کے شکارافراد کو منجنیقوں میں ڈال کر شہروں میں پھینک دیا ، جب یورپی تاجر اور جہاز کریمیا سے چلے تو پلیگ کے یہ اثرات بھی اپنے ساتھ لے گئے ، تین سال کے عرصے میں پلیگ کے جراثیم پورے یورپ میں پھیل گئے ۔

وسطی ایشیا میں یہ وبا پہلے سے موجود تھی اس لیئے لوگ اس کے علاج سے واقف تھے لیکن اہل یورپ کے پاس اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا ، شہر اجڑ گئے اور اکثر گاوٴں دیہات خالی ہوگئے ۔ پلیگ کے بعد چودھویں صدی میں دوسری تباہی بلیک ڈیتھ کے نام سے آئی جس کے نتیجے میں یورپ کی تین فیصد آبادی موت کے منہ میں چلی گئی ۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب مبالغہ آرائی اور میری اپنی باتیں ہیں تو آپ مشہور انگریز مصنفین ول ڈیورانٹ، نور برٹ، فونٹانا ،لانڈیس او ر ڈاکٹر مبارک علی کو پڑھ سکتے ہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یورپ نے عروج کیسے حاصل کیا اس کا جواب اگلے کالم میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :