انصاف وہ جو مرضی کا ہو

جمعہ 28 اگست 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ہمارے ہاں اللہ لوک قسم کے ”لوگوں“ کو (جو اپنی مستی میں آپ مست رہتے ہیں) عموماً بخشی ہوئی روح سے بھی پکارا جاتا ہے ،البتہ طنزکرناہوتو کئی شرارتی قسم کے لوگوں کیلئے یہ لقب اچھالے جاسکتے ہیں۔ ہمیں فی الوقت توکسی ”بخشی ہوئی روح“ سے پالا نہیں پڑا البتہ بعض اوقات اپنے رانا صاحب کے خیالات سن کر اورانہیں دیکھ کر خوب اندازہ ہونے لگتا ہے کہ سیانے واقعی ٹھیک ہی کہتے ہیں، سرائیکی کی ایک مثال ہے اوریہ جملہ عموماً ان لوگوں کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جو وقت کے حالات اورواقعات سے بے پرواہ ہوں اورانہیں اپنی ناک کی سیدھ میں ہی دیکھنے کی عادت ہے ،آس پاس کی خیرخبر بھی نہ ہو ،(ایسے لوگوں کوالبتہ اللہ لوک نہیں کہاجاسکتا) ایسے لوگوں کو عموماً سرائیکی میں کہاجاتا ہے ”تینوں گھلی اے نہ لگی ھ“ یہ عموماً ہوا ضمن کے استعارا استعمال کیاجاتا ہے خیر رانا صاحب ایسے لوگو ں میں بہرحال شمار نہیں کئے جاسکتے البتہ سیاسی امور سے نابلد ہونے کی وجہ سے البتہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ وہ ”سیاسی طورپر اللہ لوک ہی ہیں“ اللہ جھوٹ نہ بلوائے خاص مواقع پرتو ایسی دور کی ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ بس اللہ دے اور بندہ لے، ماڈل ٹاؤن سانحہ سے لیکر اب تک کوئی ایساموقع انہوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا ، ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے دلائل اخذ کرلیتے ہیں کہ بند ہ سوائے پریشانی کے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)


تازہ ترین شاہکار بھی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں کہ این اے 122 کافیصلہ کرنے والے ٹربیونل جج کاظم علی ملک اپنے بیٹے کیلئے ٹکٹ کے خواہاں تھے، ٹکٹ نہ ملنے پر سیخ پاہوگئے اورانہوں نے مسلم لیگی امیدوار کونااہل قرار دیکر ری پولنگ کاحکم جاری کردیا، ہم عموماً عرض کیاکرتے ہیں کہ ہمارے ہاں انصاف اسی کو ہی کہتے ہیں جو مرضی کاہو، ایسا انصاف ہمیں قبول نہیں ہوتا جس میں سوفیصد انصاف شامل ہو،ارے صاحب یہ ہم اپنی بات نہیں کررہے ،نہ رانا صاحب ،پرویز رشید صاحب قسم کے حوالے سے بات کررہے ہیں بلکہ ایک اشارتاً بات کی ہے ۔

اب آپ ہی ڈھونڈ لیجئے یہ پھندہ کس کس کے گلے میں فٹ ہوتاہے ۔خیر رانا صاحب نے تو جو کہنا تھا وہ کہہ دیا البتہ کاظم ملک کی وضاحت بھی آگئی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھلا میں کیوں بکوں گا، میری ساری عمر انصاف کرتے گزرگئی، کسی سے ڈرتا نہیں ہائیکورٹ کے چارچیف جسٹس میری گواہی دینگے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے تیس سے زائد فیصلے مسلم لیگی اراکین کے حق میں دئیے اس کامطلب یہ ہوا کہ وہ رانا ثنا اللہ سے ڈرتے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔


صاحبو! یہ تو پاکستان کا سیاسی کلچر ہے کہ یہاں ”میٹھا میٹھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھوتھو“ کاعملی نمونہ نظرآتا ہے، ابھی کچھ ہی عرصہ قبل پی ٹی آئی عدالتوں پر اعتماد کرتی رہی پھر”عدم اعتماد “ کازمانہ آگیا، پھر باری مسلم لیگ کی آئی خواجہ سعدرفیق جیسے ”اللہ لوک“ کے خلاف فیصلہ آیا ،طوفان کھڑاہوگیا کہ انصاف کا پلڑا جھک گیا ہے،البتہ وفاقی وزرا نے اشارتاً تو کہا مگر کھل کر نہ بولے مگر اب دوسری باری قومی اسمبلی کے ”بگ باس“ کی آئی تو پرویز رشیدبھی چپ نہ رہ سکے ،فرمانے لگے کہ این اے 122کے معاملے میں انصاف کا پلڑا ایک طرف کچھ زیادہ ہی جھکا ہوا نظرآرہا ہے۔

پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ابھی ایمپائر نے انگلی اٹھائی ہی نہیں تھی تو عمران خان کو کیسے پتہ چل گیا تیسری وکٹ بھی گرنے والی ہے،وفاقی وزیراگر کرکٹ اوراس کی باریکیوں سے آشنا ہوتے تو انہیں خوب خبر ہوتی کہ باؤلر اورخاص طورپر دھواں دھار قسم کا فاسٹ باؤلر تو بیٹسمین کی کانپتی ٹانگوں سے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ کتنے پانی میں ہے، خاص طورپر ابتدائی اوور میں ہی جب دو بیٹسمین اوپر نیچے آؤٹ ہوکر پویلین جاچکے ہوں (مگر ٹیم کاکپتان بضد ہوکہ نہیں یہ آؤٹ نہیں ہوئے انہیں گیارہویں پلیئر کے بعد دوبارہ بیٹنگ پر بھیجاجائیگا)تو تیسرے کی کانپتی ٹانگیں ضرور بتاتی ہیں کہ اب گیا کہ تب،خیر دیکھنا یہ ہے کہ این اے 154کافیصلہ کیانکلتا ہے تاہم امید واثق ہے کہ ان لفظوں کے منظر عام پرآنے تک کچھ نہ کچھ ضرور سامنے آجائیگا ہوسکتاہے کہ پھر آوازہ اٹھے کہ ” لو جی پھر انصاف کا قتل ہوگیا“ یا پھر یہ ہوسکتاہے کہ ”ایمپائر“ کی انگلی ہی نہ اٹھ سکے۔

ایمپائر کی انگلی سے یاد آیا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک چالیس دن تک ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہے مگر انگلی اٹھنا تو کجا ایمپائر تک نظرنہیں آیا اور اللہ واسطے کی کہئے تو یقین کریں کہ ہم اب تک اس تیسرے ایمپائر کی بابت نہیں جان سکے البتہ لیگیوں کی بھی خوب کہی کبھی کسی کو ایمپائر بنادیا توکبھی کسی اور کو، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرف بھی انگلی اٹھی تو عوامی ردعمل آنے پر یاتو معذرت کرناپڑی یا پھر انگلی اٹھانے والے کااستعفیٰ سامنے آگیا(مشاہد اللہ خان سے معذرت کے ساتھ ) عموماً سیانے ایسے ہی واقعات پر کہاکرتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو، ہماری جاننے والی ایک بی اماں کہا کرتی تھیں کہ پتر جو پہلے بول کر پھر اپنے لفظوں کو تولتا ہے اسے ”منہ کی کھانی پڑتی ہے(انہوں نے تو ٹھیٹ سرائیکی میں جو کچھ کہاوہ لکھنے لائق نہیں) پتہ نہیں اماں جی کس حد تک صحیح کہتی تھیں اس کاادراک یقینا مشاہد اللہ خان کو بخوبی ہوچکاہوگا۔

ہوسکتا ہے کہ انہی ابھی تک ادراک ہی نہ ہوسکا ہو موصوف سیکھنے کی عمر تو خیر نہیں البتہ ان کا تجربہ بڑا ہے۔ کسی ناکام کھلاڑی سے صحافی نے سوال کیا آپ کو کھیلتے ہوئے بیس برس بیت گئے مگرآپ اپناوجود ثابت نہیں کرسکے ،کیاآپ اپنا ٹائم ضائع نہیں کردیا، کھلاڑی فوراً بولا ” نہیں جی میں نے تجربہ ضرور حاصل کرلیا ہے“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :