کشمیر !اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

بدھ 26 اگست 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی میں نہ مانوں پریس کانفرنس جس میں پاکستان کو دلی میں کشمیری رہنماوٴں سے ملاقات سے باز رہنے کی شرط رکھی گئی تھی، پاکستانی دفتر خارجہ نے مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر دلی میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کو فضول قرار دیا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کے مشیر قومی سلامتی سرتاج عزیزکا دورہ بھارت بھی عین وقت پر منسوخ کردیاگیا ہے ۔

اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے جامع مذاکرات بحال ہونے کی جو امید اوفا میں دونوں ملکوں کے وزراء اعظم کی ملاقات سے پیدا ہوئی تھی ایک بار پھر دم توڑ گئی ہے ۔ ظاہر ہے قومی سلامتی کے مشیر وں کی ملاقات منسوخ کرنے پر دونوں ملک ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دارقرار دے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ملک کسی نہ کسی حد تک اس کے ذمہ دار ضرور ہیں لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کا عنصر اس بگاڑ میں بہت زیادہ ہے ۔

بھارت پاکستان پر الزم عائد کر رہا ہے کہ وہ اوفا معاہدے کہ من پسند تشریح کر رہا ہے جبکہ پاکستان بجا طور پر یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کے بغیر مذاکرات ” پانی وچ مدھانی “ ( بے نتیجہ ) ثابت ہوں گے ۔ اصل میں پاک بھارت تعلقات کی گھتی اس قدر الجھ چکی ہے کہ اس کو سلجھانے کے لئے جہاں دونوں ملکوں کو نہایت سنجیدہ اور مخلص کوششوں کی ضرورت ہے وہیں ان کوششوں کوخاص طور پر دونوں ملکو ں کے نابالغ میڈیا کی شرارتی نظروں سے بچانا از حد ضروری ہے ۔

بھارتی میڈیا تو اس قدر مدہوش ہے کہ اس نے کسی خفیہ ایجنسی کے آپریشن کی طرح داوٴد ابراہیم کونہ صرف کراچی میں ڈھونڈ نکالا بلکہ انتہائی احمقانہ انداز میں اس کی اہلیہ سے بات کر کے فون کو بھی ریکارڈ کرلیا ۔!چہ مطلب ؟
خطے میں قیام امن کے لئے مودی حکومت سے اب تک لگائی گئی تمام امیدیں بری طرح اس لئے دم توڑ گئی ہیں کہ یہ امیدیں لگانے والے ہی غلط تھے ۔

مودی سے امن کی امیدیں لگانے والے شائد بھول گئے تھے کہ واجپائی اور مودی میں زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد پُلوں کے نیچے سے کارگل سمیت اور بہت سا پانی گز ر چکا ہے ۔ مودی کی تربیت آر ایس ایس کی گو د میں ہوئی تھی اور کون نہیں جانتا کہ آر ایس ایس کا خمیر مسلم دشمنی سے بنایا گیا ہے ۔ جب سے بھارت میں مودی کی حکومت آئی ہے تو خود بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام ہو چکا ہے اور مسلسل ان میں ایک خوف کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔

بھارتی صوبے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور بابری مسجد کی شہادت نام نہاد جمہوری بھارت کے پیشانی پر تعصب کا وہ کالا دھبہ ہے جسے رہتی دنیا تک نہیں دھویا جاسکتا،اور آر ایس ایس یا اس کے سیاسی بازو بی جے پی کی پاکستان دشمنی تو اور بھی زیادہ ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے سب سے بڑے پرچارک ہیں ۔ اس صورت میں کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ بی جے پی اپنے ووٹرزکو جنہیں اس نے پاکستان کے خلاف آخری درجے تک بھڑکا رکھا ہے ان کے دباوٴ کا مقابلہ کرے اور پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کے لئے مخلصانہ کوششیں کرے ۔

دوسری طر ف پاکستان کو بھی عالمی سطح پر جو سفارتی کوششیں کرنا چاہیے تھیں وہ بھی نہیں کی گئیں ۔
میں نے اوپر ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کی منسوخی کا ذمہ دار کوئی ایک ملک نہیں لیکن بھارت کی طرف سے بگاڑ کا عنصر زیادہ ہے ۔اوفا معاہدہ جس کو بنیاد بنا کر بھارت شور مچا رہا ہے کے ابتدائیے کے الفاظ ہیں
”they are prepared to discuss all outstanding issues“
اب ان الفاظ سے کوئی بھی ذی شعور یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ ان کے مطابق قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میں تمام باہمی مسائل پر مذاکرات کی بات کی جارہی ہے ۔

اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ کشمیر ہی ہے ، گواس مسئلے کو عالمی سطح پرباور کرانے کے لئے پاکستان کی سفارتی کوششیں ناکافی ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے مفادات بھی بھارت کے ساتھ زیادہ مشترک ہیں لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ خطے میں امن کا درواز ہ کشمیر ہی ہے ۔اب اگر بھارت کا ” کاں چٹا “ ہے تو پاکستان کو سفارتی سطح پر اپنی کوششوں میں جارحانہ اضافہ کرنا ہوگاتاکہ عالمی برادری کو معاملے کے درست پہلو سے آگاہ کیا جاسکے اور انہیں باور کرایا جاسکے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ نہیں بلکہ کشمیری عوام بھی اس کا تیسرا فریق ہیں اور حریت قیادت ہی ان کی حقیقی نمائندہ سیاسی طاقت ہے ۔

لیکن اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے ملکوں کے ساتھ معاشی مفادات کی وابستگی بھی از حد ضروری ہے کیونکہ عالمی سیاست میں عملی طور پر قانون اور اخلاق ثانوی چیزیں ہیں ،قانون ،انصاف یا اخلاقیات سے پہلے باہمی تعلقا ت میں ملکوں کے قومی مفادات مقدم رکھے جاتے ہیں ۔
اوفا میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور مودی میں ہونے والی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس کا پہلا نقطہ ملاحظہ فرمائیے جس کو بنیاد بنا کر بھارت نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میں صرف دہشتگردی پر بات ہو گی ۔

"A meeting in New Delhi between the two NSAs to discuss all issues connected to terrorism"
بظاہر اس نقطے سے یہ ہی محسو س ہوتا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات دہشتگردی کے موضوع پر بات چیت کے لئے ہوگی لیکن اگر اس چیز کو گہرائی سے سوچا جائے تو دنیا بھر میں جہاں بھی آزادی کی تحریکیں چلتی ہیں تو جس طاقت کے خلاف آزادی کی تحریک برپا ہوتی ہے وہ آمرانہ اور جابر قیادت اسے دہشتگردی سے ہی تعبیر کرتی ہے لیکن تحریک کے روح رواں عوام کے علاوہ قانون ،انصاف اور اخلاق پسند طاقتیں حریت پسندوں کو کسی طور دہشتگرد قرار نہیں دے سکتیں ۔

لیکن اگر بھارت اسے دہشتگردی ہی قرار دینے پر بضد ہے تو حقیقی طور پر اس کی بنیادی وجوہات کا سدباب کردے جو کہ صرف اور صرف استصواب رائے ہے تو بھی یہ معاملہ حل ہوجائے گالیکن ،اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔
اوفا اعلامیے کا پانچواں اورآخری نقطہ بہت دلچسپ اور یک طرفہ ہے ملاحظہ کیجئے !
"Both sides agreed to discuss ways and means to expedite the Mumbai case trial, including additional information like providing voice samples."
اس پانچویں نقطے سے پاکستان دفتر خارجہ کی کمزوری اور سستی کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے اور اسی بات پر اوفا اعلامیے کے فوری بعد پاکستانی میڈیا نے بجا طور پر نشاندہی کی تھی کہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہ ہونا خالی از علت نہیں ۔

معلوم نہیں کیوں اوفا اعلامیے میں بھارتی دلچسپی کے تمام امور کا پوری طرح احاطہ کیا گیا لیکن پاکستانی دفتر خارجہ معلوم نہیں کہاں سو رہا تھا کہ پورے اعلامیے میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ اصولی طور پر ضروری تھا کہ اوفا معاہدے میں مسئلہ کشمیر کاواضح ذکر کیا جاتا کیونکہ آپ جتنے بھی نیک نیت ہوں فریق مخالف آپ کی معمولی سی کمزوری یا کوتاہی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ۔

بین الاقوامی تعلقات میں اگر،مگر یا چونکہ چنانچہ کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسی بات پر اب بھارت واویلا مچا رہا ہے کیونکہ اس کی نیت میں آغاز سے ہی بدنیتی شامل ہے ۔ در اصل قوموں کے باہمی معاملات میں باہمی اتفاق سے جو چیزیں احاطہ تحریر میں لائی جاتی ہیں اور ان پر اتفاق کیا جاتا ہے اس پر پوری دنیا کے ممالک میں بہت عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے مستقبل کے تمام امکانات اور خدشات کو مد نظر رکھا جاتا ہے لیکن اوفا معاہدہ پاکستانی دفتر خارجہ کہ کم صلاحیت یا غفلت کی نظر ہوا اور دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات منسوخ ہو گئی ۔


اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان کے لئے بھارتی مقبوضہ کشمیرکا حصول یا رائے شماری کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں یا پھر یہ کوئی دوچار برس کا کام نہیں جو ایک بار شروع ہوگا اور مقررہ وقت میں ختم ہوجائے گا۔ اب تک مسئلہ کشمیر پر اگر کبھی سنجیدہ پیش رفت ہوئی تو وہ واجپائی کا دورہ پاکستان تھا جب دونوں ملکوں کی قیادت نے اپنے اپنے ملک میں باہمی سر پھٹول والا درجہ حرارت کم کر کے مثبت پیش رفت کی تھی لیکن تاج محل کے رومانوی ماحول میں تصویریں بنوانے والا ایک کمانڈو برسوں کی محنت کارگل کی چوٹیوں پرفتح کر کے چلتا بنا اور اب خدا ہی جانے کشمیریوں کی زندگی کو جہنم سے نکالنے کا یہ موقع قدرت کب فراہم کرے گی۔

کسی بھی خرابی کو لیکن درست کرنے کا وقت کبھی بھی ختم نہیں ہوتا پاکستان کو چاہیے کہ دہشت گردوں کے بلاامتیاز خاتمے کے لئے شروع کئے گئے آپریشن ضرب عضب جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اس کو منطقی انجام تک پہنچائے اور سرگرمی کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرے اور
اپنے موٴقف کے حق میں ایسے دلائل پیش کرے جس سے دنیا کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی احساس ہو کہ جنوبی ایشیا ء میں امن و استحکام اور خوش حالی کے لئے اس مسئلے کا جلد سے جلد حل ہونا ضروری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :