استعفیٰ سیاست

ہفتہ 22 اگست 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

اب صرف داستاں باقی رہ جائے گی ، کیونکہ مقتدر حلقے فیصلہ کر چکے ہیں کہ جو ٹھان لیا گیا ہے اس پر عمل ہوگااور ہر صورت ہوگا۔ میرے خیال میں تو استعفوں کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہو چکا کیونکہ کل ایک ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بہت واضح اشارہ دیا ہے ۔ قومی اسمبلی سے ایم کیو ایم کے استعفے مسترد کر دیئے جائیں گے اور اس کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم کو اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا کیونکہ یہ دوہزار پندرہ ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرچکا ہے ۔ENOUGH IS ENOUG ،بہت ہوچکا۔ ایم کیوایم شائد پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنی پیدائش سے لے کر کچھ عرصہ پہلے تک کسی نہ کسی طرح اقتدار کی ٹھنڈی بس کے مزے لے رہی تھی ۔ آصف علی زرداری یا پھر پیپلزپارٹی کے گزشتہ دو ر میں تو وزیراعظم گیلانی اور پرویز اشرف نائن زیرو پر لندن سے ایک حواس باختہ شخص کے ٹیلی فونک خطبے سننے کے لئے ایسے کھڑے ہوتے تھے جیسے مرشد کامل کی بارگاہ میں ایک ادنیٰ مرید حاضر باش اور ہمہ تن گوش ہو۔

(جاری ہے)

میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو نائن زیرو نے سب سے پہلے کراچی میں قیام امن کے لئے کراچی میں فوج کو بلانے کا مطالبہ کیا تھا جسے بعد میں دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی پذیرائی بخشی ۔حالت یہ ہے کہ کراچی کے باسیوں میں سے شائد ہی کوئی ایسا بچا ہو جس کے گھرانے میں سے کوئی شخص اندھی گولی یا اچانک لگنے والی آگ میں لقمہ اجل نہ بنا ہو۔

کراچی کا شائد ہی کوئی شہری ایسا بچا ہوجس کے ساتھ اغوابرائے تاوان،ڈکیتی ،چوری ،موبائل چھیننے یا اس طرح کی اور کوئی واردات نہ بیتی ہو۔ ان حالات میں حکومت نے بجا طور پر کراچی میں رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا تھاکیونکہ فوج پہلے ہی بہت سے محاذوں پر مصروف کارہے ، کسی بھی ادارے پر اس کی حیثیت سے زیادہ بو جھ لاد دیا جائے تو منطقی نتیجہ بربادی ہی ہو سکتا ہے ۔

بہرحال کراچی میں رینجرزکے آپریشن کے بعد ایم کیوایم نے جس زورو شور کے ساتھ فوجی آپریشن کے مطالبہ کیا تھا اس سے بھی زیادہ زور شور سے واویلا شروع کردیا ۔ الزام وہی پرانے کہ سیاسی انتقام لیا جارہا ہے ،کارکنوں کو مارا جارہا ہے ، کارکن غائب کئے جارہے ہیں وغیر ہ وغیرہ ۔ لیکن ان الزامات کو نہ تو کسی اور سیاسی جماعت نے دہرایا اور نہ ہی کسی بھی سطح تک ان الزامات کو پذیرائی ملی ہے ، اس لئے کی یہ صرف الزامات ہیں ۔

دنیا دیکھ چکی کہ ایم کیو ایم کے مرکز سے جب جرائم میں ملوث سزایافتہ افراد پکڑے گئے تو لندن تک سے اس بات کا اعتراف اس انداز میں کیا گیا کہ ” کارکنوں نے اگر کچھ کیا تھا تو ادھر ادھر ہوجاتے ،کیا جگہیں کم پڑ گئی ہیں “۔ اپنی آخری تقریر میں لیکن لندن کے حواس باختہ آدمی نے حدیں توڑی ہیں اس میں ملکی سلامتی کے اداروں پر رقیقی حملے کئے گئے ۔

زبان ایسی کہ گاوٴں کی جاہل عورتوں نے باہمی جھگڑوں میں کبھی استعمال نہ کی ہو، سیکورٹی فورسز کے افسروں کو گالیاں اور بددعائیں تک دی گئیں بلکہ بھارت جیسے ازلی دشمن سے بھی مدد طلب کی ۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو استعفے داغ دئیے ۔ تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے ایم کیوایم کے استعفے اور وقت اس کو ثابت کرے گاکہ اس سے ایم کیوایم ایک اندھی گلی میں داخل ہوچکی ہے ۔

سپیکر قومی اسمبلی کی حد تک جو بات ہوئی وہ میں آپ کے گوش گزار چکا۔جمعرات کو وزیراعظم کا دورہ کراچی بھی عقلمندوں کے لئے کافی ہے جس میں وزیراعظم نے واضح طور پر رینجرز آپریشن پر کسی بھی قسم کی بات سننے سے انکار کردیا ہے ۔ رہی بات لندن سے الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطبوں کی تو اب وہ بھی ممکن نہیں ہو سکیں گے ۔ باقی رہی بات پارلیمانی کمیٹی کی تو اس کانہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان اور کم از کم میری نظر میں یہ ایک انتہائی فضول مطالبہ ہے ۔

کوئی سیاستدان یہ فیصلہ کیسے کر سکتا ہے کہ رینجرز نے جو ملزم پکڑے ہیں وہ بے گناہ ہیں یا جرائم میں ملوث ہیں ؟ اس بات کی تحقیقات پولیس یا دوسرے اداروں کو کرنا ہیں اور فیصلہ عدالت کو سنانا ہے ۔ آجا کے ایم کیوایم کے پاس استعفیٰ سیاست رہ گئی تھی لیکن اب استعفوں کے دباوٴ میں کوئی نہیں آنے والا۔ نائن زیرو کومولانا فضل الرحمان کے ذریعے پیغام دے دیا گیا ہے کہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ،اب مصیبت یہ ہے کہ ایم کیو ایم واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے جو حکومت آسانی سے نہیں دے گی اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے کہ پارلیمنٹ کو مذاق بنا کر نہ رکھ دیا جائے ۔

ساری دنیا نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کے ارکان نے سب کے سامنے سپیکر کو استعفے بھی پیش کئے اور ان کی تصدیق بھی کی ۔ خیال یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی طرز پر شور مچا کر کراچی آپریشن روکوایا جائے اور پھر حکومت کو نیچادکھا یا جائے لیکن الٹی ہو گئی سب تدبیریں ۔اب تو ایم کیو ایم یہ سوچ رہی ہو گی کہ ہمیں دھکا کس نے دیا۔ اب ایم کیو ایم مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رحم وکرم پر ہے ۔

آصف علی زرداری کا ایک اشارہ انہیں سینیٹ اور سندھ اسمبلی سے باہر نکال دے گا اور یہی صورتحال ن لیگ وفاق میں پید اکر سکتی ہے لیکن میاں نواز شریف نہیں چاہیں گے کہ ملکی معیشت میں بہتری کی جو کوششیں انہوں نے کیں ہیں ان کے راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ آئے یا نظام کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔ اس لئے ایم کیوایم کے استعفے مسترد تو کر دیئے جائیں گے لیکن اس وقت جب ایم کیوایم دباوٴ کے اس حربے کی قیمت ادا کرے گی۔

اسی لئے مولانا فضل الرحمان کی ثالثی سیاست کی گئی ، میرے خیال میں لیکن مولانا جو پیغام لے کر گئے وفاقی حکومت سے زیادہ اس میں راولپنڈی کا موٴقف واضح کیا گیا۔سلامتی کے معاملا ت کے پیش نظر بات کھل کر نہیں کی جاسکتی لیکن فوج ایک منظم ادارہ ہے اور وہ جانتی ہے کہ مستقبل میں اسے سندھ میں بھارت کے ساتھ مشترکہ سرحد پر مشکلات درپیش ہوں گی اس کے پیش نظر کراچی میں یہ حالات اب بالکل بھی برداشت نہیں کئے جاسکتے ۔


غیر جانبداری سے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم کا آپریشن کے خلاف واویلا ، استعفوں سمیت بلاجواز ہے ۔ نصرت مرزا کے انکشافات کے بعد بابر غوری صاحب حالانکہ بیرون ملک ہیں لیکن اونچا سانس تک لینے کے روادار نہیں ۔ موٹے ،چھوٹے ،ٹوکے اور کے ٹو نائن زیرو پر کیا کر رہے تھے اس بات کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا ۔

کیا ایم کیوایم کے رہنمااس بات سے بے خبر تھے کہ یہ مجرم وہاں چھپے بیٹھے ہیں ؟جتنی بھی تاولیں پیش کی جائیں وہ بلاجواز اور ناقابل قبول ہوں گی۔ بدحواسی میں ایم کیو ایم نے استعفوں کا جو فیصلہ کیا تھا وہ اس کے گلے پڑ چکا ہے اگر استعفے قبول کر لئے گئے تو سینیٹ سے تو دوہزار اٹھارہ تک ایم کیو ایم کا صفایا ہو جائے گا۔ رہی بات سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی کی تو اگر مسلم لیگ ن دوسری سیاسی قوتوں خاص طورپر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو اعتماد میں لے لے تو معاملات سنبھالنے اتنے بھی مشکل نہ ہوں گے ۔

بات دراصل یہ ہے کہ ایم کیوایم ہر بات اس لہجے میں کرتی ہے کہ جیسے ان کے الفاظ معاذاللہ کوئی صحیفہ آسمانی ہوں اور اوپر سے ماشا اللہ ان کی پروپیگنڈہ کی طاقت سب ہی جانتے ہیں ۔ اسی لئے سوچ سمجھ کر الطاف حسین کے خطبوں اور انٹر ویوز کو روکا گیا ہے ۔ اندر کی خبر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے بہت سے رہنما اب الطاف حسین کے ہر بیان کا دفاع کرنے کے لئے خود کو تیار نہیں پاتے کیونکہ بہت سی چیزیں اب عوام کے سامنے آچکی ہیں اور ان کی تردیدممکن نہیں ۔ ایم کیوایم نے اگر اب بھی سوچ سمجھ کر فیصلے نہ کئے تو جو نقصان وہ اٹھا چکی وہ تو اٹھا چکی لیکن اگر ہٹ دھرمی دکھائی تو پھر داستاں ہی باقی رہے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :