آپریشن ضرب عضب فیز ٹو انتہائی ضروری

جمعرات 20 اگست 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

شجاع خانزادہ دہشت گردوں کیخلاف قومی ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنانے میں بطور صوبائی وزیر داخلہ فعال اور متحرک تھے۔ کالاشاہ کاکو میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے جن سات دہشت گردوں کو ہلاک کیا،ان میں پاکستان میں القاعدہ کا سربراہ ابدالی بھی شامل تھا۔ اس پر القاعدہ کی ایشیاء شاخ کے سربراہ مولانا عاصم عمر نے ابدالی کا بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔

زمبابوے ٹیم پاکستان آرہی تھی‘ اسے دبئی میں ”را“ کے افسر نے دہلی سے فون کرکے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ ”را“ کی یہ سازش شجاع خانزادہ نے بے نقاب کی اور پھر پنجاب حکومت نے صوبے سے ”را“ کے فنڈڈ لوگوں اور دہشت گردوں کو قومی ایکشن پلان کے تحت گرفتاربھی کیا۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی دو بیٹوں اور 14 دہشت گرد ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر خودکش حملے کی دھمکیوں کے شواہد بھی موجود ہیں۔

(جاری ہے)

سابق صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ شہید کو ممکنہ طور پر ملک اسحاق کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بدلے میں نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات کے بعد جہاں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی تلاش پنجاب کے علاقوں میں بھی جاری ہے وہیں حساس اداروں کی طرف سے ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف لکھنے والوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔

کالعدم تنظیموں سے وابستہ ایسے افراد جو اب ان تنظیموں کو حصہ نہیں وہ میڈیا ہاوٴسز یا میڈیا سے متعلقہ اداروں میں کسی نہ کسی صورت موجود ہیں۔علاوہ ازیں سکیورٹی ذرائع نے انسداد دہشت گردی فورسز کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کے بارے میں اہل خانہ تک کو بھی نہ بتائیں۔ضرب عضب آپریشن سے اب تک 28 سو دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

کئی افغانستان فرار ہو گئے اور کئی پورے پاکستان میں جہاں سینگ سمایا‘ غائب ہو گئے۔ ضرب عضب اپریشن کا اب دوسرا فیز شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ پورے ملک میں دہشت گردوں،انکی حامی کالعدم تنظیموں، سہولت کاروں اور حامیوں پر کڑا ہاتھ ڈالا جائے۔ دہشت گردی کے ناسور سے نجات کیلئے ہمیں نہ جانے کتنی قربانی دینی پڑے۔پنجاب کابینہ کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے زیرو ٹالرنس پالیسی سامنے آگئی ہے۔

مرکزی اور کسی بھی صوبائی حکومت کے پاس دہشت گردی کے حوالے سے اب غلطی اور غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ مصلحت،مفاہمت اور دہشت گردوں سے مذاکرات کا تو کوئی سوچے بھی نہ۔ اب کسی کا کوئی لحاظ نہیں۔ فوج دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے قربانیاں دے رہی ہے۔ حکومت کا ایک حصہ دہشت گردوں کیلئے نرم گوشے کا اظہار کرتا رہا اب دہشت گردوں کا ہاتھ انکے گریباں کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔

حکمرانوں نے دہشت گردوں کا خاتمہ ان سے قوم کو نجات دلانے کیلئے ہی نہیں کرنا خود اپنی حفاظت کیلئے بھی کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور انکی کابینہ نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو اس پر دامے‘ درمے اور سخنے عمل بھی کرکے دکھائیں۔ اس کاز کیلئے اپنی کشتیاں جلا دیں، قوم آپ کے ساتھ ہے،اللہ کی نصرت بھی شامل حال ہوگی۔

کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کے لوگ لاہور جیسے بڑے شہروں میں جلسے کرتے رہے ہیں،دیگر سرگرمیاں بھی جاری رہی ہی، انکے انتظامات فرشتے نہیں کرتے تھے۔ شہروں میں ان تنظیموں کے ہمدرد سہولت کار کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ حکومت پنجاب بتائے ایسے کتنے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا۔ یہی سوال مرکزی حکومت سے ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے کتنے سہولت کار اور سرگرم حامی پکڑے گئے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :