تیر

جمعرات 20 اگست 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

مولانا فضل الرحمن پکے ٹھکے سیاست دان ہیں، وہی کرتے ہیں جو ٹھیک سمجھتے ہیں ، کسی رو رعایت کے قائل ہیں نہ کسی ملامت کی پروا کرتے ہیں،کہا جاتا ہے مولانا نے سیاست میں جو مقام حاصل کیا ہے وہ بائیں بازوکے ساتھ رہ کیا ہے، البتہ ان کا شمار دائیں بازو کے لیڈروں میں ہوتا ہے اور ووٹ بھی دائیں بازو کے ہی ملتے ہیں، کچھ دینی حلقے مولانا سے شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ یہ ووٹ دائیں بازو سے لیتے ہیں اور کام بائیں بازو کے لیے کرتے ہیں ، ویسے تو اب دائیں اور بائیں کی سیاست کا صرف نام ہی رہ گیا ہے ،دائیں والے بائیں کے ساتھ اور بائیں والے دائیں کے ساتھ ہم پیالا و ہم نوالا رہنے لگے ہیں لیکن کچھ جماعتیں کسی نہ کسی طور پھر بھی دائیں اور بائیں کی ترجمان اور نمائندہ کہلا تی ہیں۔


مولانا گزشتہ روز نائن زیرو تشریف لے گئے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق مولانا حکومتی ترجمانی کر رہے تھے، خود مولانا سے منسوب بیانات بھی اس جانب اشارہ کر رہے تھے، لیکن متحدہ نے مولانا کو ثالث سمجھ کر ملاقات کی اور مذاکرت کیے مولانا نے متحدہ سے فرمائش کی کہ اپنے ارکان اسمبلی کے استعفے واپس لے اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کا موقع ضائع نہ کرے ، سیاست کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرے انقلابی طریقہ سود مند نہیں ہو گا، متحدہ کو بھی اس سے انکار نہیں لیکن بات فور تسلیم کرنے سے ذرا انتظار کروا کے ماننے کی روش میں شاید وقارزیادہ لگتا ہے۔

(جاری ہے)


مولانا کی نائن زیروآمد دینی حلقوں کے لیے کافی حیرت انگیز تھی ، حالاں کہ مولانا کا دورہ مذہبی رہ نما کے طور پر نہیں خالصة ایک سیاسی رہ نما کے طور پر تھا، جب سیاست جمہوری اصولوں کے تحت ہوگی تو کہیں آنے جانے پر کسی قسم کی حیرت ، خود باعث حیرت ہونی چاہیے، جذباتیت کی انتہاؤں پر رہنے والے مذہبی کارکن اور رہ نما دعا کر رہے رتھے مولانا کا دورہ کسی وجہ سے منسوخ ہو جائے لیکن ایک مذہبی طبقہ مولانا کے نائن زیرو جانے کی دعائیں زور و شور سے کر رتھا، تا کہ وہ متحدہ سے نفرت کے نام پر مولانا سے اپنے بغض کا دل کھول کر مظاہرہ کر سکے۔


####
مولان کے دورہ نائن زیرو سے متحدہ اور حکومت کو فائدہ ہو یا نہ دینی حلقوں کے لیے فوری طور دو باتیں بطور سبق سمجھ میں آنی چاہییں پہلی یہ کہ آپ کا تعلق کسی بھی جماعت اور لیڈر سے ہو، اس کی ایسی وکالت نہ کریں کہ کل کلاں جماعت یا رہ نما ایسا موقف اختیار کریں جو باعث ندامت و شرمندگی ہو ، یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ کو خوہ مخوا تاویلات نہ کرنی پڑیں دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہبڑے سے بڑے مخالف کے سے اختلاف میں اتنی دور نہ نکل جائیں کہ واپسی میں شرمندگی ہو ، یعنی واپسی کے لیے دروازہ و کھرخی نہ سہی روشن دان ضرور کھلا رہنا چاہیے ، تا کہ کوئی چور دروازہ تلاش کرنا پڑے نہ دیوار میں نقب لگانی پڑے
####
حکومتی نمائندہ یا ثالث اور متحدہ کے درمیان ابھی بساط مذاکرات بچھی ہی تھی کہ متحدہ رہ نمارشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے کی خبر ماحول کو عجیب وغریب بنا دیا، اس خبر کو ہر شخص نے اپنی سیاسی سوچ کے تحت لیا اور سمجھا، پورادن یہ اطلاع بھی گردش میں رہی کہ گوڈیل چل بسے ہیں ، بلکہ کچھ ذرائع کا اصرار ہے کہ مصنوعی تنفس کا جو سہارا لیا گیا وہ ان کی موت کی خبر کو چھپانے کے لیے ہے ، کہا جاتا ہے کہ گوڈیل کی متحدہ کی اعلی قیادت سے گر بڑ چل رہی تھی ، اس لیے ان کو ساز دی گئی ، ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ نادیدہ ہاتھوں نے ہاتھ دکھایا ہے تا کہ بات چیت نہ ہو سکے اور اشتعال عروج پر جائے ، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔


####
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے اور نہ ہونے کی بحث ایک بار شروع ہو گئی ، اس میں تیزی اور کافی شور پایا جاتا ہے ، انتخابات میں تاخیر کی بندوق سیلاب کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن یوں تو خود مختار ادراہ شمار کیا جاتا ہے یا اسے ہونا چاہیے لیکن ایسا عملا اب تک ممکن ہو سکا ہے نہ آئندہ ایسا ہونا ممکن لگ رہا ہے، عدالت عظمی کا تقاضا اور اصرار ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے تاریخ طے کر کے عدالت کو بھی بتائے اور دونوں صوبائی حکومتوں کو بھی اطلاع کرے ، دیکھا جائے تو دونوں صوبوں میں فورا بلدیاتی انتخابات یہاں کی حکومتوں کے حق میں نہیں ہوں گے ، دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ کچھ ایسے تیر مار لیں کہ انتخابات کروانا پڑ ہی جائیں تو زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکیں ، اور مخالفین کو زیر کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :