ملکی وحدت مگر کیسے؟

منگل 18 اگست 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

کسی دانشور کا قول ہے۔ ”اچھے ذہن تحقیق کی بات کرتے ہیں، عام ذہن حالات کی بات کرتے ہیں، کمزور ذہن لوگوں کی بات کرتے ہیں۔“ اس قول کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی قومی سوچ کا اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگانی چاہے کہ ہم بحثیت مجموی دوسروں کی باتیں کرتے ہی گزار دیتے ہیں جسے غیبت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قومی وحدت جو کسی بھی قوم کے قائم رکھنے اور ترقی کرنے میں اہم سنگ میل ہے کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے تفرقہ اور تقسیم کا شکار معاشرہ بھی بن چکے ہیں ۔


اگر دنیا کی طبقاتی درجہ بندی کی جائے تو اس کا نقشہ کچھ یوں بنتا ہے ۔ ترقی یافتہ ، ترقی پذیر ، غیر ترقی یافتہ۔ تینوں اقوام کے معاشرتی رہن سہن طور طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام زندگی کی تمام آسائشوں سہولتوں سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ علم و فضیلت مینں بھی دنیا سے آگے ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

جب کہ ترقی پذیر دنیا اپنے معاشی حالات اور پسمائندگی کی وجہ سے جو طرز زندگی گزارتی ہے اس میں قومی وحدت کا فقدان اور اخلاقی پستی کا شکار ہونے کے ساتھ معاشرہ نفسیاتی چڑچڑے پن کا شکار رہتا ہے۔

اْن کا احساسِ محرومی ہی انسان کو منفی سوچ کا عادی بنا دیتا ہے۔ آپ اپنے ملک کے طول عرض میں گھوم پھر کر دیکھیے کیا ہم اسی حالت کا شکار معاشرہ نہیں ہیں؟۔ جبکہ غیر ترقی یافتہ معاشرے ،اقوام یا ملک ان کی حالت تو قابل دید ہوتی ہے یہاں آپ کو صرف زندگی جینے کے لئے تگ و دو ہی نظر آئے گی ایسے معاشرے یا ملک بنیادوں قدروں سے ہی نا آشنا ہوتے ہیں۔


تاریخ شاہد ہے کہ تفرقہ زدہ قومیں ہوں یا افراد کے گروہ اورجماعتیں ،اپنی وحدت کھو دیتی ہیں اور اس دیوار کی طرح کمزور ہوجاتی ہیں جسے دیمک لگ چکی ہوتی ہے جس کے زرا سی تیز ہوا کے چلنے سے بھی گرنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔تفرقے کی شکار قومیں ،جماعتیں ،اور گروہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے سچائی کا گلا گھونٹتے آئے ہیں جس کا انجام معاشروں میں انتشار اور فساد کی صورت میں سامنے آتا ہے اس انتشار اور فساد کی تاریخ بڑی گھناونی ہے ،،، ہم بحیثیت مجموعی انتشار زدہ سوچ کے عکاس معاشرہ بنتے جارہے ہیں ۔

ہر طبقہ ہائے فکر میں ایسی ہی سوچ کار فرما نظر آئے گی ہمارا میڈیا بھی اسی تفرقے کا شکار ہو کر خود بھی تقسیم کے عمل سے گذر رہا ہے اور قوم کو بھی تقسیم در تقسیم کر رہا ہے جسے انتہائی افسوس ناک امر قرار دیا جانا چاہیے ،میڈیا کا کام قومی وحدت کو پارہ پارہ ہونے سے بچانا ہے۔ عوام میں ابھی بھی کچھ استشنات کو چھوڑ کر مجموعی طور پر میڈیا کے بارے اچھی رائے قائم ہے اس لے ابھی وقت ہاتھ میں ہے کہ میڈیا کے کرتا دھرتاوں کو میڈیا کے حوالے سے کوئی ایسا ضابطہ اخلاق طے کرنا چاہیے جس میں میڈیا پرسن وہ کسی بھی حیثیت میں ہوں ملکی وقار کے منافی اور قومی وحدت کے خلاف کوئی پروگرام نشر کریں اور نہ کچھ لکھیں۔

ملکی حالات بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں اور ضرورت بھی اس امر کی ہے؟
دوسری جانب ریاست کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم میں قومی سوچ، وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرئے۔ ان جتھوں گرہووں اور جماعتوں اور افراد پر نظر رکھی جائے جو قوم کو کسی بھی طریقہ سے تقسیم اور تفرقے کا شکار کرتے ہیں ۔ معلوم نہیں ہمارے حکمران کن مصلحتوں کی بنا پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں ۔

حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں اگر باہمی رواداری کو فروغ نہ دیا گیا تفرقہ بازی اور انتہا پسندی کو ختم نہ کیا گیا تو ملکی سلامتی کے لئے یہ عنصر کتنا خطرناک بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں ملک انتشار وعروج کی طرف بڑھ رہا ہے، جو ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت و اداروں کا تغافل کسی بڑے خطرہ کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے۔ بعض قابل احترام ادارے سخت تنقید کی زد میں ہیں جو خطرناک بھی ہے اور آنے والے حالات کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں۔

مسائل کی نشاندہی کر دینا ہی کافی نہیں ان کا حل بھی پیش کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ خدشات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔آئے روز ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں جن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
ریاستی عملداری اور قانون کی حکمرانی قائم کئے، نظم و نسق اور قوانین، میں بہتری لائے ،انصا ف کے حصول کو آسان سستا اور تیز ترین بنائے ،امیر اور غریب کے فرق کو کم کئے ،تفرقہ بازوں کیحوصلہ شکنی اور پابندی لگائے بنا، ملک میں نظام تعلیم یکساں بنائے بغیر ہم تحمل روادری اور قومی وحدت پر مبنی معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔

تمام ٹی وی اینکر پرسنز کالم نگاروں اور دانشوروں کے لئے ضابطہ اخلاق بنایا جائے تاکہ قومی وحدت کے فروغ کے لئے کام کریں نا کہ جج یا تھانے دار بن کر فیصلے سناتے پھریں۔انتہا پسندی کا خاتمہ ہر سطع پر کیا جائے ۔ قومی اداروں بلخصوص فوج کے خلاف تنقید کو ختم کیا جائے ۔
احتجاج کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے مگر اس کے لئے بھی کچھ حدود قیود ہونے چاہیں چار فرد اٹھتے ہیں کوئی بھی سڑک بلاک کر دی جاتی ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑنے کے ساتھ کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے احتجاج کے لئے کچھ خاص جگہ مخصوص کی جانے چاہیے تا کہ لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکیں اس کے لئے ہمسایہ ملک (بھارت)کے طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے وہاں پارلیمنٹ کے سامنے ایک بہت بڑا میدان ہے وہاں عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور حکومت رکاوٹ نہیں بنتی۔

بلکہ اس میدان میں ٹینٹ اور دریاں تک موجود ہوتی ہیں، وہ اس لئے کہ اگر لوگوں کو کچھ دن وہاں رْکنا پڑے تو انھیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے حتیٰ کہ وہ لوگ برتن اور چولہے تک ساتھ لے کر آتے ہیں۔ یوں وہ جی بھر کر اپنے مطالبات پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔ اِسی طرح برطانیہ میں ہائیڈ پارک میں ہر ایک کو ہر شخص پر تنقید کا حق حاصل ہے۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ خود ریاست اس طرح کے انتظامات کرے کہ لوگوں کو کم سے کم ریاست کے خلاف شکایات ہوں جس کی لئے قومی وحدت ، تحمل اور ردواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ریاستی ادارئے عوامی خدمت کو اپنا مشن بنائیں اور عوام ریاست کے ہر حکم کی تعمیل کرئے تب جا کر ایک مثالی حکومت اور معاشرہ بن سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :