احوال وادی سون سکیسرضلع خوشاب۔قسط نمبر1

اتوار 16 اگست 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

وادی ِسُون سکیسرضلع سرگودہا سے 110کلومیٹر اور دارُلخلا فہ اسلام آباد سے290کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع خوشاب میں واقع ہے ۔ سلسلہ ِکوہ نمک کے پہاڑوں میں گھرا قدیم تہذیب و تمدن کاحامل، مذہبی روایا ت کا امین ،قدرتی طورپر سرسبز اورخوبصورت علاقہ خوشاب شہرسے شمال مغرب کی جانب پیل پدھراڑ سے لے کر سکیسر تک تقریباََ56کلومیڑلمبائی اور 14کلومیٹر چوڑائی پر پھیلے رقبے میں چھوٹی بڑی آبادیوں پیل، پدھراڑ، جابہ، د ھددہڑ، مکڑمی، ڈُھرنال، مردوال، اوچھالی، اوچھالہ، سرہال، شکرکوٹ، سبھروا ل ، ا نگہ ، اُگالی شریف ، سوڈھی ، کلیال ، بُھکی(مصطفٰے آباد)، کھوڑہ ،جھالر، کفری (نیا نام صادق آباد) کے علاوہ چھوٹی چھوٹی ڈھوک اورخوبصورت چاہڑیوں(چاہڑی پہاڑوں میں گھری ہموار زمین) پرمشتمل وادی سون سکیسر کا صدرمقام نوشہرہ ہے۔

(جاری ہے)


سلسلہ کوہِ نمک میں واقع اس وادی کابلندترین مقام سکیسرجو سطح سمندر سے1530میٹر، (5010 فٹ) بلندہے۔سردیوں کے موسم میں یہاں شدید سردی اور اکثراوقات برف باری بھی ہوتی لیکن باقی وادی کا موسم گرمیوں میں خوشگوارٹھنڈا، اور سردیوں میں نشیبی علاقوں کی نسبت زیادہ سردہوتا ہے۔قدرتی طور پرسرسبز،خوبصورت سکیسر ایسی بلنداور واضح جگہ پر واقع ہے جہاں سے جہلم،خوشاب، چکوال ، میانوالی اور ضلع سرگودہا سمیت پنجاب کا بیشتر حصّہ باآسانی دیکھاجا سکتا ہے۔

اسی قدرتی خوبی کی بناپر1950کی دہائی میں اس دلکش اوردلفریب مقام کو پاکستان ائیر فورس بیس میں تبدیل کردیا گیااوربعدازاں اس علاقے کے عوام تک نشریات پہنچانے کے لئے پاکستان ٹیلیویژن کابراڈکاسٹنگ سنٹربھی قائم کیا گیا۔
یہاں کے لوگ دراز قد، سفیدرنگ،خوب صورت شخصیت کے مالک، ملنسار، حوصلہ مند، جفاکش اور محنت میں عظمت پر یقین رکھتے ہیں۔

وادی سون سکیسر کے لوگوں کا پسندیدہ لباس بلندطرہٰ (شُملہ) والی سفید پگڑی ،سفیدقمیض اور سفید تہہ بندہے۔زبان پنجابی مگربولنے کے دوران شائستہ علاقائی لب ولہجہ، مٹھاس اور خاص وضع وانداز کا غلبہ نظرآتا ہے۔ مثال ! مانہہ ملک تھینداں، اسڈھیاں گڈیاں اسڈھے روٹ۔
وادی سون سکیسر کے لوگوں کی سادگی کی مثال !کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں بُھکی کے ایک بزرگ کو مقدمہ کی بنا پر بڑے شہر کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔

اُس وقت کے لوگ جج کو حکومتی نمائندہ ہونے کے بنا پر سرکار کہہ کر پکارتے تھے۔ جج نے بزرگ سے پوچھا کہ ۔۔ تمھارا گھر کہاں ہے۔۔ بزرگ نے احترام سے جواب دیا ۔۔سرکار بُھکی ۔
جج نے حیرانی سے پوچھا تم نے کیا کہا ۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب ؟سرکار بُھکی ؟ بزرگ نے عدالت میں موجود لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ سب لوگ بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔جی۔۔سرکار بُھکی ۔

جج کو اس شخص کی سادگی کا احساس ہوا تو ہنسے بغیر نہ رہ سکا اورعدالت میں موجود باقی لوگ بھی اس اتفاقی اور دلچسپ مقالمہ بازی پر ہنس دیئے۔
اللہ رب العزت نے اس علاقے کو منفرد آب و ہوا اور زرخیزمٹی عطا کی ہے۔ سون سکیسر کے لوگ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بڑی بڑی جاگیروں کے مالک نہیں بلکہ یہاں کی اکثریت چندایکڑ سے زیادہ زمین نہیں رکھتی۔

اس لئے یہاں کے لوگوں کی اولین ترجیح سپہ گری، اس کے بعد یہاں کی زیادہ تر آبادی کا انحصارگلہ بانی اور زراعت پر ہے۔کہ جب ملک کے باقی حصوں میں سبزیوں کی قلت ہواُس وقت وادیِ سون سکیسر کے پھل اور خاص کر سبزیاں ملک کے اکثریتی حصے کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ یہاں کی سبزیاں لذت اور غذائیت کے لحاظ سے ملک بھرمیں منفرداور بے مثال ہیں۔ وادی سون سکیسر کی آب وہوا پولٹری صنعت کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔

یہاں کا قدرتی شہد پورے پاکستان میں مشہورہے۔
اگرچہ اس علاقہ میں آج کل آبپاشی کے لئے ٹیوب ویل بہترین ذریعہ ہیں مگر اوور بلنگ اورانرجی بحران کی وجہ سے یہاں کے لوگ پریشان حال ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا انحصاراورگزربسر بارانِ رحمت سے سیراب ہونے کی صورت میں کاشتکاری پرہے۔ اس لئے یہاں کے لوگ اللہ پر توکل اور اُس کی عطا پر شکرکرنے کے عادی اور انتہائی مشکل حالات میں بھی خوشی، اعتماد اور چہرے پر سکون رکھنے کے ہنُر سے واقف ہیں۔

یہاں چرواہے علی الصبح اپنے اپنے ریورڈ لے کر وادی کے مختلف حصوں میں پھیل جاتے ہیں اور سارا دن پہاڑوں اورجنگل میں گزارنے کے بعد عصرکے وقت اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
آج سے چندسال قبل تک شادی کے موقع پرمستقل روایت تھی،کہ شادی سے کئی روز پہلے ہی قبیلہ کی ا جتماعی بیٹھک(دارہ) پر ڈھول کی تاپ پر ہیمڑی گانے کی محفلیں سجناشروع ہوجاتیں۔

جہاں دوہڑے ،ماہیے علاقائی گیت قوالی طرزپر جس میں دوگروپ مل کرگاتے ۔شادی کے دن بارات کے لئے اونٹوں پرکچاوے رکھے جاتے جنہیں خوب اچھی طرح سجایا جاتا۔ جب یہ قافلہ ڈھول کی تاپ پرغیرہموار راستوں سے ہوکردُلہا کے گاؤں سے دُلہن کے گاؤں کی جانب رواں دواں ہوتا تو یہ منظر دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔
عیدکے موقع پرجب دوردراز کے شہروں سے ملازمت پیشہ لوگ گھروں کو لوٹتے تونوجوانوں کی کبڈی اور والی بال کی ٹیمیں ترتیب دے کر مختلف گاؤں کی ٹیموں کے درمیان مقابلے کا انتظار بڑی بے چینی سے کیا جاتا تھا۔


اسی طرح نسل درنسل دُشمنیاں اوردوستیاں بھی یہاں کی مستقل روایت اور تھانہ ، کچہری اس خطے کے لوگوں کے کلچرکاجزوِلازم کی حیثیت رکھتاہے ۔ محمدخان ڈھرنالی ، ممتاز کُندی، سِدوولاسر (سردارعلی) اور ملکی سطح پر دُشمنی اور پولیس مقابلوں کے حوالے سے جانا پہچاناکردار جس کے نام پر ماضی میں فلمیں بھی بنائی گئیں "چراغ بالی" کا تعلق بھی اسی خطے کے نواحی گاؤں ہڈالی سے تھا۔


یہاں آج بھی مساوات کا بہترین نمونہ دیکھنے کوملتاہے کہ فوتگی امیر یا غریب کی ہوپہلے تین دن مہمانوں کے لئے دال روٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بنے گی۔ جس کا مقصد غریب گھرانے کے لوگوں کی اخلاقی مدد اوراُنہیں احساس کمتری سے بچانا ہے۔یہاں کی زیادہ تر آبادی "قطب شاہ اعوان" قبیلے پر مشتمل ہے۔ اعوان برادری کے بارے مشہور ہے کہ یہ لوگ چاند پر بھی آبادہوجائیں توبھی ٹرانسپورٹ، فوج، کھیتی باڑی ہی کا پیشہ اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے۔

اسی طرح اگر گھروں کی پیشانی پر لکھنے کا رواج ہوتا تو ان کے ہرکچے پکے گھر کے دروازے پر "اعوان تیرا اللہ نگہبان" لکھا ہوتا۔
خوشاب سے نوشہرہ کی طرف بل کھاتی سڑک پر جیسے جیسے بلندی پرپہنچتے ہیں تو اس وادی کی تازہ آب وہوااورکشش ہرایک کواپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے اورانسان اس وادی کے سحرمیں گم ہوتا چلاجاتا ہے۔ پہاڑکے بلندمقام پر بابا گولڑہ کی مسجدکے سفید مینار دورسے ہی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور بلندی کی جانب سفر کے دوران نیچے میدانی علاقے کی مختلف آبادیاں ہڈالی،کنڈ، خالق آباد، بھرکن، پنڈی ، وہیر، شاہ محمد صدیق کامزار،جوہرآباد،خوشاب ، سندرال اور دریائے جہلم تک کا نظارہ کیا جاسکتاہے۔


نڑواڑی سے کچھ کلو میڑفاصلہ طے کرنے کے بعددائیں جانب پتھریلا راستہ " پیرکچھیاں اور قلعہ تلاجھا"کی طرف جاتاہے۔ یہ دونوں مقام مین شاہراہ سے تقریباََ 10 سے12کلومیٹر پر ہیں۔یہاں صرف ہائیکنگ کے ذریعہ ہی پہنچنا ممکن ہے۔ قلعہ تلاجھا نشیبی گاؤں نلی اور کھوڑہ کی سرحد پرپہاڑ کا الگ سے ایسا بلندحصّہ ہے، جہاں سے پہاڑ چاروں طرف سے کٹ کر نیچے چلاجاتا ہے۔

اس لئے قلعہ کے اندرواحدقدرتی داخلی راستے کے علاوہ کسی طور پر بھی داخل ہونا ممکن نہیں۔
اس قلعہ تلاجھا کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم وقتوں میں کسی بادشاہ یاسردارنے دُشمن سے محفوظ رہنے کے لئے یہاں مختصرسا قلعہ بنایا تھا،تاکہ عافیت سے رہ سکے،مگراُس کے دُشمن نے تُلاجھاسے قدرے بلندعقبی پہاڑسے تیر اور پتھر برساکراُس کا کام تمام کردیا۔

اس جگہ رہائش کے لئے بنائی جانے والی بڑی اور چوڑی دیواریں دیکھنے والوں کو آج بھی حیران کردیتی ہیں کہ آخر اتنے بڑے اور وزنی پتھرایک دوسرے پرجوڑنے کس طرح ممکن ہوئے۔صدیاں گزرنے کے باوجود جس کی باقیادت ابھی تک موجود ہیں۔
قلعہ تلاجھا سے دامنِ پہاڑ کے گاؤں نلی،ناڑی،موہرہ، مہلوال، کٹھہ ،منگوال ،دئیوال اوردیگر میدانی بستیوں کا نظارہ کیا جا سکتاہے۔

قلعہ کے قریب ہی دوبلند پہاڑی حصوں کے درمیان صحت بخش، ذائقہ دار اور صاف شفاف چشمہ (جوبابا ناڑے والا کے نام سے منسوب ہے) کے پانی سے پہاڑکے دامن کی وسیع رقبے پرپھیلی آبادی اللہ رب العزت کی اس رحمت سے مستفید ہورہی ہے ۔ اس چشمہ کے اردگر بے شمارسر سبزگھنے درخت اور پرندوں کے گیت یادوں میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوجانے والا خوبصورت سما ں پیدا کرتے ہیں ۔جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :