جیسے کو تیسا

اتوار 16 اگست 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

گزشتہ روز یعنی چودہ اگست کو دو باتیں ہر جگہ زیر بحث رہیں ایک یہ کہ یہ کتواں یوم آزادی ہے ، (68)اڑسٹھواں یا (69)انہترواں۔ دوسری بات ہر خاص و عام یہ کرتا رہا کہ پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کو ہے یا 15 اگست کو؟کیوں کہ بعض محققین یہ تحقیق سامنے لائے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کا یوم آزادی ایک ہی ہے ، پاکستان نے 1948میں ایک روز پہلے جشن منایا جو روایت بن گئی ،اور یہ بات غلط مشہور ہو گئی کہ پاکستان 14اگست کو آزاد ہوا تھا اور ہندوستان 15اگست کو ۔

اچھی بات ہے بحث کو نئے نئے عنوانا ت ملنے چاہییں، قوم بھی فارغ ، رہ نما بھی، کام دھندہ کچھ ہے نہیں ، اتنے اخبارات ، اورٹی وی چینل ہیں کب تک پرانی باتیں رگڑتے اور گھستے رہیں گے؟۔
شکر ہے ابھی تک اس پرسب کا اتفاق ہے کہ پاکستان 1947کو ہی آزاد ہوا تھا ، بہت ممکن ہے کل کلاں ایسی کوئی تحقیق آجائے جس میں کہا جائے کہ پاکستان چھیالیس میں آزاد ہو چکا تھااور بھارت سینتالیس تک قید میں رہا ، یا اس کے عکس ۔

(جاری ہے)

رہی بات اڑسٹھویں اور انہترویں یوم آزادی کی تو یہ بات بھی علم میں رہنی چاہیے کہ قمری یعنی چاند کی تاریخوں کے حساب سے پاکستان بنے گزرنے والے رمضان کی ستائیسویں شب کو ستر سال ہو چکے۔ ویسے شاید یہ بات زیادہ اہم نہ ہو کہ پاکستان کب آزاد ہوا، اور کس سن میں ہوا ؟ البتہ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوا یا نہیں تو بھئی یہ بھی ایک المیہ ہے اڑسٹھ یا ستر سال گزرنے کے باوجود ہم اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟
گویا ہم سب ایک بات پر متفق ہیں کہ ہم نے کبھی کسی بات پر اتفاق نہیں کرنا ، یہی کامیابی ہے ،اگر اتفاق کر لیا تو بحث کس بات پر کریں گے آخر بولنے کو قینچی کی طرح چلتی تیز طرارزبان جو ملی ہے اور سننے کو جو دو دو کان ملے ہیں ان کا بھی تو کوئی مصرف ہونا چاہیے ، لکھنے کو ہاتھ ملے ہیں ،قلم اور کاغذ ملے ،لکھنے کا سلیقہ اور قرینہ آیا ہے تو اس سے بھی استفادہ کرنا چاہیے نا ، یہ کیا بات ہوئی بھلا کہ اتفاق ، اتحاد کی رٹ لگا لگا کر قوم کو بور کرتے رہیں، کچھ نہ کچھ تو ہلہ گلہ ہونا چاہیے نا! بوریت کو بھگانا چاہیے ، کچھ ہنسانا کچھ رلا نا چاہیے ۔


####
متحدہ قومی مومنٹ قومی اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہو چکی ، سینیٹ کو بھی خیر باد کہہ چکی ، پھراس کو یہ احساس ہوا کہ یہ کچھ زیادہ ہی جلد بازی کر لی ہم نے ، واپسی ہونی چاہیے ، مگر کیسے؟اس کا طریقہ اسے نہیں سوجھ رہا ، ادھر حکومت اور اس کے دیگر کل پرزوں کی بھی سوچ ہے کہ متحدہ کو باہر نہیں اندر ہونا چاہیے مگر کیسے ؟ طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا ، متحدہ جس آپریشن کو اپنے خلاف بتا رہی ہے وہ اسی طرح جاری رہے گا، یا یوں کہہ دیا جائے حکومت اور اس کے کل پرزوں کو اس کے روکنے کی قدرت نہیں یا وہ اس کو استعمال نہیں کرنا چاہتی ، متحدہ اندر رہتی تو کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا اس کے لیے بہتر رہتا ، لیکن اب کرے تو کیا کرے ، ہتھیار اٹھائے ؟ واقعی باغی بن جائے ؟ منہ بسور کے بیٹھی رہے ؟ بھلا اس سے کسی کے کان پر جوں کیوں رینگنے لگی ؟ کچھ ذرائع کا دعوی ہے میاں صاحب نے اہم سیاسی کھلاڑی مولنا فضل الرحمن کی خدمات حاصل کر لی ہیں شاید یہ تحریک انصاف کے معاملے میں مولانا کی رائے کا جواب ہو ،کہ جب استعفی دے دیا تو بس دے دیا۔

ادھرمولانا فل مینڈیٹ کے طلب گار ہیں، فل مینڈیٹ میاں صاحب اسحاق ڈار کو نہیں دیتے، مولانا کو کیسے دے دیں ، بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ فل مینڈیٹ میاں صاحب خود بھی استعمال نہیں کرتے بھلا دوسروں کو کیسے دے سکتے ہیں؟
####
میاں صاحب کے کچھ نادان دوست اس شاخ پر آری چلا رہے ہیں ، جس پر بیٹھے ہیں ، ایک مہربان چپ ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے ،اسے کچھ افاقہ ہوتا ہے تو تیسرے کے دل و دماغ میں ہل چل مچ جاتی ہے ۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ساری شرارت میاں صاحب کے اشارے پر ہورہی ہے ، میاں صاحب کے وفادار ساتھی اسٹیبلیشمنٹ کو چرکے لگانے اور چھیڑ چھاڑ کرنے میں مصروف ہیں ، میاں صاحب اپنے ساتھیوں کو تنبیہ کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، جس طرح جنرل راحیل شریف کچھ شریر قسم کے فوجیوں کے پیچھے نہیں تھے ، اسی طرح میاں صاحب بھی اپنے ساتھیوں کی اس حرکت سے بری ہیں، رہی ان کو سزا دینے کی بات تو جس طرح آرمی چیف اپنے شرارتی دوستوں کو سزا دینا مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں اسی طرح میاں صاحب بھی اپنے دوستوں کے خلاف زبانی تنبیہ کے علاوہ کچھ کرنے خلاف مصلحت سمجھتے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ جیسے کو تیسے کا یہ کھیل طاقت کے استعمال پر ختم ہوگایا دماغ کی بنتی رہے گی ؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :