فوجی عدالتیں اورپرانی ڈگر

اتوار 16 اگست 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

بعض اوقات کسی نسبتاََ غیر اہم بات پر اس قدر واویلا کیا جاتا ہے کہ جو اصل یا زیادہ اہم بات ہے وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے ۔ ملکی سیاسی صورتحال میں واقعات اس قدر تیزی سے وقوع پذیر ہور ہے ہیں کہ کسی ایک موضو ع پر ذہن مرتکز کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد ظاہر ہے کہ فیصلہ چونکہ عوامی ہو چکا ہے تو اس کی تحسین بھی کی جارہی ہے اور بعض حلقے ا س پر تنقید بھی کر رہے ہیں ۔

فوجی عدالتیں پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں لیکن عدالت عظمیٰ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ اس امر کا برملا اعتراف ہے کہ کم از کم ماتحت عدلیہ کا مروجہ نظام عوام کو انصاف کی فراہمی میں اس بری طرح ناکام ہوا ہے کہ معاشرے میں شدید بگاڑ اور بے چینی پیدا ہوچکی ہے جس کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیز سمجھا گیاہے ۔

(جاری ہے)

جس دن سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا اسی شام کو راولپنڈی سے دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف آنے والافیصلہ میرے نزدیک مگر اس سے بھی اہم ہے ۔


فوجی عدالتوں کی بات کی جائے تو جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے پاکستان میں یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی ضرورت کیاہے ؟ اس سوال سے اگر یہ تاثر ابھرے کہ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا ناقد ہوں تو فی الوقت یہ درست نہیں ہے ۔ ماتحت عدلیہ کے ساتھ ساتھ ہمارے محکمہ پولیس کا جو حال ہے وہ سب ہی جانتے ہیں ۔ انصاف کے حصول میں مددگار بننے والے وکلا ء سے بھی اب یہ معاشرہ اچھی طرح آگاہ ہے کہ آپ کو اگر اپنا حق لینے کے لئے عدالت میں جانا پڑے تو متوسط طبقے کے افرادکے گھر وں کی خواتین کے زیوربک جاتے ہیں اور بعض اوقات توبے چارے لوگ گھر کے برتنوں تک سے محروم ہوجاتے ہیں۔

کسی بھی عدالت میں مقدمہ میں پیش ہونے کے لئے ایک مناسب وکیل کی فیس بھی پچاس ہزار سے کم نہیں اور اگر بات ہائی کورٹ کی ہو تو پھر لاکھوں روپے جیب میں لے کر ہی وکیل کے پاس جانا چاہیے اور اس صورت میں بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ جو وکیل آپ نے حصول انصاف کے لئے مقرر کیا ہے آپ اسی کی ناانصافی کا شکار نہ ہوجائیں۔ آمدم برسرمطلب !پینتیس برس پہلے اسلامی بھائی چارے کے نام سے ہم نے جو فصل بوئی تھی وہ ہمیں پچاس ہزار کے قریب شہریوں اور وطن کے محافظ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں اور افسروں کے سروں کی صورت میں کاٹنی پڑی ہے ۔

خدا غریق رحمت کرے پشاور کے معصوم شہدا کو اور صبر جمیل عطا کرے ان کے والدین کو جن کی قربانی نے ہمیں اس نقطے پر متحد کردیا کہ ہم نے متفق ہوکر نام نہاد اسلام کے ٹھیکدار بندوق بردار ظالمان کے خلاف علم جہاد بلند کردیا۔ شائد فوجی قیادت بھی اب یہ بات سمجھ چکی ہے کہ پرائے چھابے میں ہاتھ ڈالنا کوئی مناسب بات نہیں ۔ افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی سوچ بری طرح پٹ چکی ہے ۔

جب آپ دوسروں کی لڑائی میں بلاوجہ کودپڑتے ہیں تو ظاہر ہے دو چار گھونسے تو آپ کو بھی پڑ سکتے ہیں لیکن اس قوم نے دو چار نہیں ہزاروں دھماکے اور حملے برداشت کئے ۔ اپنے معصوم بچے ،کڑیل جوان بیٹے،قابل احترام بزرگ اور عزت مآب بیٹیاں ،مائیں اور بہنیں قربان کی ہیں ۔اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ اچھے یا برے طالبان میں کوئی تمیز نہیں ہے اور ریاست کو چیلنج کرنے والے ہر بندوق بردار کے خلاف یکساں طور پر کارروائی ہو گی تو سامنے کہ بات یہ ہے کہ گزشتہ پینتیس برس سے چلا آرہا سلامتی کا PARADIGM ( فلسفہ یا تھیوری )یا پرانی ڈگر بدل چکی ہے ۔

آج اس قوم کا ایک عام آدمی ،طالب علم ،مزدور،تاجر،وکیل،کسان،دانشور ،سیاستدان اور فوج سب اس نقطے پر متفق ہیں کہ اب ہمیں دوسروں کی لڑائی میں نہیں پڑنا لیکن ظاہر ہے جو حالات بگڑ چکے ہیں ان کو سنوارے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے ۔ اس بگاڑ کو سنوارنے کے لئے مروجہ پولیس یا عدالتی نظام بہرحال کارآمد نہیں ہے ۔ کیوں نہیں ہے اور کیسے ہوگا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن فوری طور پر جو امر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس پر قابو کیسے پایا جائے ۔

کیسے دہشتگرد عناصر کو تیزی کے ساتھ ان کے انجام تک پہنچایا جائے تاکہ وہ جیلوں میں عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے روٹیاں نہ توڑتے رہیں اور سرکار ان کے حفاظت کے لئے خطیر رقوم بھی خرچ نہ کرے ۔واحد حل اس کا یہی ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے تیزی کے ساتھ تحقیق کے بعد گناہ گاروں کو نہ صرف سزا سنائی جائے بلکہ فوری طور پر اس پر عملدرآمد بھی کیا جائے ۔

یہ درست کے کہ جمہوری معاشرے میں فوجی عدالتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا ۔ میرے اس جملے سے اگر کسی کو نظریہ ضرورت کی بُو آئے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ دنیامیں کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ یہ ہم ہی ہیں جو اس کو اچھے یا برے معانی پہناتے ہیں اور معانی پہنانے کا تعلق عمل سے ہے ۔

اگرملک و قوم کی بہتری کے لئے کام کرنا ہوتو نیک نیتی کے ساتھ کسی نظریہ ضرورت پر عمل کرنے میں کوئی برائی نہیں ۔ انسان اپنی ضرورت کے تحت ہی چیزیں ایجاد کرتا ہے ،تو سماج میں امن قائم کرنے کی ضرورت کے تحت ایک خاص نظام وضع کرنے میں کیا برائی ہے ؟
دوسرا اہم فیصلہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہے ،جس میں فوج نے اپنے نظام کے تحت این آئی سی ایل کیس کی تحقیقات کے بعد میجر جنرل خالد ظہیر کو نوکری سے برطرف(بعد ازریٹائرمنٹ برطرفی؟)کردیا جبکہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کی سرزنش کی گئی ۔

فیصلے کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے خلاف یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ انہوں نے مالی فائد ہ حاصل کیا ہو لیکن سرزنش سے ظاہر ہے کہ بے قاعدگی ،بے ضابطگی یا غفلت کے مرتکب تو وہ ہوئے ہیں ۔میرے نزدیک یہ فیصلہ کوئی بہت زیادہ تحسین کے قابل نہیں ہے ۔ آپ حیران ہوں گے کہ کہیں میرا دماغ تو نہیں گھوم گیا؟تاریخ میں پہلی بار ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کی سرزنش کی گئی اور ایک میجرجنرل کو سزا سنائی گئی، قوم تالیاں پیٹ رہی ہے اور میں یہ کہ رہا ہوں کہ فیصلہ قابل تحسین نہیں !جی ہاں این آئی سی ایل کیس میں تقریباََ ایک ارب اسی کروڑ روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ایک ریٹائرڈ جرنیل سے کہا جارہا ہے کہ تم نوکری سے برطرف ہو ۔

ارے بھائی !وہ نوکری پر موجود کب ہے جو اسے برطرف کر رہے ہو۔ اسی لئے میر ا خیال ہے کہ فیصلہ خوش آئند ضرور ہے کہ ۔۔۔۔
یہاں تک تو پہنچے ،یہاں تک تو آئے
لیکن اس کی تحسین نہیں کی جاسکتی ۔ ذراسوچئے کہ کیا کسی عام سرکاری ملازم پرعدالت میں اگر دو ارب کے فراڈ کا الزام ثابت ہو جائے تو کیا اس کوصرف نوکری سے برطرفی کی سزا ملے گی ؟میجر جنرل نے دھڑلے سے ساری ملازمت گزاری ،تنخواہ لی، اختیارات استعمال کئے اور پھر تمام مراعات لے کر ریٹائرڈ ہوگیا ۔

اب اسے کہا جارہا ہے کہ ملازمت سے برطرف!صرف برطرف ۔۔۔۔ جی نہیں !قومی دولت پر جو دو ارب کا ڈاکہ ڈالا گیا وہ کیوں نہی واپس لئے جارہے؟کیا قومی دولت کے ضیا ع کی سزا صرف نوکری سے برطرفی ہے ؟اور نوکری بھی ایسی جس کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ جنر ل راحیل شریف کا یہ قدم خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایک ایسی روایت قائم کردی ہے جو کسی دلیرآدمی کا ہی کام ہے لیکن ایک صاف شفاف معاشرے کے قیام کے لئے نہ صرف فوج بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی بہت سا کام باقی ہے ۔گویا یعنی ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔۔
واللہ عالم باالصواب

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :