نظریہ پاکستان ہے کیا

جمعہ 14 اگست 2015

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

نظریہ یا آئیڈیالو جی وہ بنیادی تصورات ہوتے ہیں جن پرکسی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔آئیڈیالوجی اپنے اندر شدید قوت محرکہ رکھتی ہے۔اس میں بموں سے ذیادہ طاقت ہوتی ہے۔جب ہم نظریہء پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تصورات اور آئیڈیالوجی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔حصول مملکت کے لیے جس نظام کو منتخب کیا گیا تھا اور نظریہء پاکستان کی وضاحت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ انیس سو چوالیس میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے یوں کی کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔

ظاہر ہے جو شخص مسلمان ہوا ہو گا وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اور اس پر ایمان لا کر اور دائرہء اسلام میں داخل ہو ا ہو گا۔

(جاری ہے)

چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہ طیبہ ٹھہری یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں ہر طرف ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔ یہ کوئی بچوں کا نعرہ نہیں تھا بلکہ بانی پاکستان نے خود اس کی وضاحت کی تھی۔

پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔

اس کا عملی اعلان رسول پاک نے اعلان نبوت کے بعد کر دیا تھا۔کہ ابو جہل اور ابو لہب زبان و نسل ،وطن ثقافت اور کئی ایک جیسی چیزوں کے اعتبار رسول پاک سے الگ قوم کے افراد تھے۔جبکہ سلمان فارسی صہیب رومی اور بلال حبشی مختلف زبان و نسل اور کلچر رکھنے کے باوجود اسی قوم کے فرد تھے۔جس کے ابو بکر اور حضرت علی تھے۔اسی دو قومی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہوا۔

اور یوم فرقان نے واضع کر دیا کہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیااور قیام پاکستان کی پہلی اینٹ انہوں نے 24 مئی 1875 میں رکھی ۔ پھرسرسید نے یہ شمع سیالکوٹ کے فرزند اقبال کے ہاتھوں میں دی۔یہ وہی اقبال تھا جو پہلے خاک وطن ہر ذرے کو آفتاب کہتا تھا۔

اور اپنے نیشنلسٹ ہونے پر نازاں تھا پھر اسی اقبال نے اس نظریے کو رد کردیا اور کہا کہ
ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے
جو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
جب عالمگیر انسانیت کو وطن کی بنیاد پر تقسیم کیا جانے لگا تو علامہ اقبال نے واضع طور پر رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کا نشانہ دین نبوی ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سے
ور انہوں نے قومیت کا وہی واضع تصور دیا جس پر ایمان لا کر کوئی مسلمان کہلاتا ہے۔

انہں نے مزید کہا کہ
اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ایک طرف سرسید اقبال اور جناح دین کی بنیاد پر قومیت کی وضاحت کر رہے تھے تو دوسری طرف کچھ نام نہاد مسلمان رہنماء جن میں علماء بھی شامل تھے اس نظریہ کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے ہندوؤں کی ہمنوائی میں قوم کی بنیاد وطن کو قرار دے رہے تھے۔

اور مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک ہی قوم کا فرد کہہ رہے تھے۔انہی میں سے ایک مولانا حسین احمد مدنی بھی تھے۔ جو کہہ رہے تھے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔علامہ اقبال اس وقت بستر مرگ پہ تھے اور انہوں نے اپنا آخری معرکہ وہیں سے لڑا۔جب انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی آواز سنی تو ان کے دل سے ایک چیخ نکلی اور کہا کہ
عجم ہنوز نداندرموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمدایں چہ بوالعجبی است
سرود برسرملت کہ منبراز وطن است
چہ بے خبر از مقام محمد عربی است
مصطفی برساں خویش راہ کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
نہائیت قابل غور الفاظ ہیں۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ رسول پاک کے مقام سے بے خبر ہو کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ملت یعنی قوم وطن کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔حالانکہ یہ رسول پاک کی نسبت سے بنتی ہے۔اور ابھی تک وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائے۔یہی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور قرآن حکیم نے تو یہ اعلان کر دیا ہے کہ جب مومنین کو زمین پر اختیار ہوتا ہے تو نظام صلواة و زکواة قائم کرتے ہیں۔

( 24 / 11)اس سے مراد وہ مملکت ہے جو اسلامی نظریہ سے تشکیل پاتی ہے۔ورنہ نماز ادا کرنے اور زکواة دا ہونے کی اجازت تو ہر غیر مسلم ملک میں بھی ہے۔اس لیے زمین پر اختیار کی ضرورت نہیں۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھی بہت سے مواقع پر یہ کہا کہ ہمیں قرآن حکیم سے رہنمائی لینی چاہیے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظریہ کو پھر سے اجاگر کیا جائے تاکہ نوجوان نسل اس سے آگاہ ہو سکے کیونکہ بہت سے عناصر مملکت خداداد کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے کے درپے ہیں۔

اور بانی پاکستان کو سیکولر شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جسے وہ سیکولر جناح کہتے ہیں اور ان کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ئکی تقریر کی غلط تعبیر لیتے ہیں۔میں ان پر واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تقریر کے بعد قائد اعظم تیرہ ماہ زندہ رہے۔اس کے بعد کی تقریروں میں قائد بار بار قرآن سے رہنمائی اور نظریہ پاکستان کی وضاحت کرتے رہے لیکن قائد اعظم نے کسی ایک موقع پر بھی یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔

کوئی اس بارے میں ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔
11 اگست 1947 میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے انکے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔

یہ بھی حقائق کے منافی ہے۔ چودہ اگست انیس سو اڑتالیس کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہا۔پھر اس سے پہلے جو لائی انیس سو اڑتالیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی پالیسی بیان کی اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔

سیکولر ازم کے پیامبروں سے میری یہ درخواست ہے کہ کیا وہ کوئی ایسی تحریر یا اسٹیٹ منٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں یا یہ کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ دراصل ان لوگوں کو سیکولرازم کے معنی ہی معلوم نہیں۔انہیں چاہیے کہ پہلے لغت میں سیکولرازم کے معنی پڑھیں۔ سیکولرازم میں وحی ، رسالت اور حدود اللہ نہ کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت تو پھر ایک مسلمان کیسے سیکولر ہوسکتا ہے۔

مشہور مسیحی رہنماء مسٹر جوشو افضل دین نے اپنے پمفلٹ Rational of pakistan constitution میں قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کہہ دینا کہ تخلیق پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کوئی ایسی بات کہہ د ی ہے کہ جس سے اس بات کا مکان ہے کہ پاکستان کی بنیاد مہندم ہو جائے گی بالکل پاگل پن ہے قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔

مختصر الفاظ میں نظریہء پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں گی۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوگی اور نہ ہی تھیا کریسی۔مملکت کا جمہوری اور معاشی نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنہ کے مطابق ہوگا۔ قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال، چوہدری رحمت علی اور جناح نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہ زمین کی نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔

لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ اور نظریہء پاکستان کے منافی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہء پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو قومیت کی بنیاد اور مملکت خداد کے نظریہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان عناصر کا سد باب کیا جاسکے جو حقائق اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :