یوم آزادی سال 2015ء

جمعرات 13 اگست 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

۶۷ /سال گزر گئے وہ پاکستان نہ بن سکا جو قائد اعظم کے ویژن کے مطابق ہوتا۔قائد اعظم  کا ویژن یہ تھا جو انہوں نے۲۶/مارچ ۱۹۴۸ءء چٹاگانگ میں فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا“کیا جن حکمرانوں کے پاس پاکستان کی سمت اسلام کی طرف موڑنے کے اختیارات تھے، انہوں نے قائد کے ویژن کے مطابق پاکستان کی سمت اسلامی جمہوری فلاحی نظام کی طرف موڑی؟ نہیں ہر گز نہیں!وہ تو قائد اعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد وزراتوں کے چکر میں مصروف رہے اور ہمارے ازلی دشمن نہرو نے تنزیہ کہا تھا کہ پاکستان میں اتنی تیزی سے وازیتں بدلتی ہیں جتنی میں دھوتیاں بھی نہیں بدلتا۔

(جاری ہے)

سیاستدانوں کی اسی غلطیوں کی وجہ سے ڈکٹیٹرایوب خان کو موقعہ ملا اور اُس نے مارشل لا لگا دیا،۱۹۵۶ء کا آئین توڑا۔ ایک نکتے پر قوم کو اکٹھا نہیں ہونے دیا۔اسلامی جمہوری فلاحی نظام کے بجائے اپنے خودساختہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت ۱۰/ سال تک ملک پر حکومت کرتا رہا۔ اس کی پالیسیوں سے تنگ آ کر لوگوں نے اس کے خلاف مظاہرے کرنے شروع کئے تو یخییٰ خان دوسرے ڈکٹیٹر کو زمام حکومت دے کر بری طرح رخصت ہوا۔

ڈکٹیٹر یخییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو کے جانسے میں آ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا موجب بنا۔ پاکستان کی سیکولرلابی نے پروپیگنڈا کرتے ہوئے مشہور کیا کہ پاکستان میں یخییٰ ڈکٹیٹر نے جو انتخابات کرائے وہ صاف اور شفاف تھے۔کیا کسی ملک کی بنیادی نظریات کے خلاف الیکشن صاف اور شفاف ہو سکتے ہیں۔ کیا پاکستان قومیتوں نے بنایا تھا۔ نہیں ہر گز نہیں! پاکستان برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر قائد ِ محترم کی زیر قیادت بنایاتھا۔

برصغیر میں ہر سو ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔کیا یہ الیکشن پاکستان کے بنیادی فلسفے کے مطابق کے تحت ہوئے تھے یا بنگلہ دیش کی بنگالی قومیت کے نام پر لڑے گئے تھے۔شیخ مجیب الرحٰمان پاکستان کو توڑنے کے فلسفے اور بنگلہ قومیت کے تحت انتخاب لڑا تھا۔ اسلحے اور زور ذبردستی سے الیکشن جیتا تھا۔ اوربلا آخر اُس نے وہی کر دیکھایا تھا اور بھارت کی فوجوں کو بنگلہ دیش پر حملہ کرنے کی دعوت دے کر پاکستان کو دو لخت کر دیا۔

اس بے انصافی اور مثل مدینہ پاکستان کے بنیادی اسلامی نظریے کے خلاف قومیتوں کے نام پرانتخابات ڈکٹیٹر یخییٰ نے کرائے تھے جو کسی طرح بھی پاکستان کے بنیادی فلسفے اور قانون کے مطابق نہیں تھے۔آج پھر ایک نیا مجیب الرحٰمان کی شکل میں وہی چال چل رہا ہے قومیت کے نام پر اوراسلحے اور زور ذبردستی سے انتخابات جیت کر بھارت کو مداخلت کی دعوت دے رہا ہے۔

الطاف حسین کی طرح مجیب الراحٰمان کو بھی کھلی چھوٹ دی گئی تھی جس پراُس نے مکتی باہنی منظم کی اور اس نے پاکستانی فوج پر حملے شروع کئے تھے۔ہر اردوبولنے والے پر تشدد کیا۔ فوج کے خلاف جھوٹی داستانیں رقم کیں جس کو آج نیا مجیب الراحٰمان لندن میں بیٹھ کر بیان کر رہا ہے۔بنگالی قوم پرتوں کی طرح اردو قوم پرستوں کو وہی پٹی پڑھا رہا ہے۔ سارے یونٹ اور سیکٹرز انجارجز کو دہشت گرد بنا دیا ہے جومکتی باہنی کے طرح وہ بھارت سے ٹرینگ لے کر آ رہے ہیں بھارت ان کی فنڈنگ کر رہا ہے جس کے ثبوت اخبارات میں آچکے ہیں۔

بھارت کو مدد کے لیے خط تک لکھ رہا ہے۔نیٹو کی فوجوں کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہا ہے اقوام متحدہ کو بلا رہا ہے۔ اس سے قبل اپنی تقریرمیں بھارت کو مہاجروں کی مدد نہ کرنے پر بزدلی تک کا طعنہ کس بات دیا تھا ۔کسی نے یہ بات شاید نوٹ نہ کی ہو کہ جب کشمیر میں مظالم کے خلاف کشمیری کرتے تھے تو بھارت کی مدد کے لیے کراچی میں ہڑتال کروایا کرتا تھا اب بھارت سے مدد مانگ رہا ہے۔

مقتدر حلقے اس بات کو نوٹ کر لیں کہ اگر کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کسی بھی وجہ سے آدھے راستے میں چھوڑ دیا گیا اور ہدافی کلرز، بھتہ خوروں اور جراہم پیشہ افراد کو چھوڑ دیا گیا تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔پھر کوئی سیاستدان ایم کیو ایم کی ووٹوں کے لیے ان کو کھلی چھٹی دے دے گا اور روشنیوں کے شہر کی رونقیں دوبارہ مدھم پڑھ جائیں گی قتل و غارت پہلے سے بڑھ کر ہو گی اور پھر اسے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔

اب تو کراچی کے عام لوگ اس ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں تمام سیاسی پارٹیاں بھی اس کی حمایت کر رہی ہیں پیپلز پارٹی تک نے ایم کیو ایم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے تاجروں نے بھی کہا کہ شہر میں ۲۵/ سال بعد پہلی دفعہ کھل کر کاروبار ہوا ہے بھتہ خوری ختم ہو چکی ہے روزانہ کی بنیاد پر قتل ختم ہو گئے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا تواس کا مطلب ہے کہ یہ سب کچھ ایم کیو ایم ہی کروا رہی تھی جو واقعی ہی کروا رہی تھی۔

کراچی کی ایک بڑی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی جس کے پاس دو دفعہ کراچی کی مہر شپ اور ایک دفعہ سٹی گورنمنٹ رہی ہے جو ایم کیو ایم کے مظالم برداشت کرتی رہی جس کے ڈیڑھ درجن کارکن ایم کیو ایم نے شہید کئے ہیں۔ جو ہمیشہ ایم کیو ایم کو اسکی پاکستان مخالف حرکتوں پر چلینج کرتی رہی ہے نے کراچی میں ایم کیو ایم کا زور توڑنے کے لیے ۹/ اگست کو ایک بہت ہی عظیم الشان پاکستان زندہ باد ریلی نیپا چورنگی تاقائد اعظم نکالی۔

یہ ریلی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحٰمان صاحب کی زیر قیادت مزار قائد تک پہنچی۔ریلی میں بوڑھے بچے خواتین اور جوانوں کی بڑی تعدادنے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اُٹھائے شرکت کی۔ اس موقعہ پر پاکستان زندہ باد، امریکا مردہ باد، امریکا کا جو یار ہے غدار ہے، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ کے نعرے لگائے گئے۔ریلی کے نظامت کے فرائض نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ رضی صاحب نے انجام دیے۔

اس موقعہ پر جماعت اسلامی کراچی کے نائب امرا،مسلم پرویز،برجیس احمد،ڈاکٹر واسع شاکر،مظفر عاشمی،جماعت اسلامی کے جنرل سیکر ٹیری عبدالواب،ڈپٹی سیکرٹیریز انجنیئر صابر،راشد قریشی زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔اس ریلی کو امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب نے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور ناٹو کو دعوت دینے والوں کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔

انہوں نے نواز شریف صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لندن سے پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والوں کے خلاف آپ نے کیا ایکشن لیا اور اس حوالے سے قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟خون کے آ خری قطرے تک پاکستان کی حفاظت کریں گے۔پاکستان سے غداری شہیدوں اور قائد اعظم کے ساتھ غداری ہے۔پاکستان ہماری آن اور شان ہے۔پاکستان کسی خطہ زمین کا نام نہیں ملکہ یہ ایک نظریہ کا نام ہے۔

اس کے قیام کے لیے لا زوال قربانیاں دی گئیں۔ انہوں نے کہا آج کی عظیم الشان ریلی پوری قوم کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔پاکستان کے عوام کو ایک بار پھر تحریک پاکستان کے جذبے کے تحت جد وجہد کرنی ہے۔ کراچی پورے پاکستان کی قیادت کرنے والا شہر ہے۔ پاکستان کو مکمل اسلامی ریاست بنائیں گے ۔محمد حسین محنتی نے کہا کہ اگست کا مہینہ پاکستان کے قیام کا مہینہ ہے۔

حافظ نعیم الرحٰمن نے کہا کہ صرف دو دن کے نوٹس پر عظیم الشان ریلی کا انعقاد کر کے ناٹو اور بھارت سے امداد مانگنے والوں کو منہ ٹوڑ جواب دیا ہے۔کراچی کے عوام پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔الطاف حسین سندھ کے مہاجروں کو پانچویں قومیت، کوٹی سسٹم کے خاتمے اور محصورین بنگلہ دیش کی واپسی کا نعرہ سے کر مہاجروں کے نام پراپنی سیاست شروع کی تھی۔

کراچی کے لوگوں دھوکہ دیا اور یہ نعرے اور مطابعے بھول کر خود لندن چلے گئے۔ کسی نے مکتی باہنی بنائی تو ہم پھر قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی نے لندن میں الطاف حسین سے کیوں رابطہ کیا۔ہم سیکورٹی کے اداروں کی حمایت کرتے ہیں۔ قارئین! پاکستان کے عوام کہتے ہیں کیااب وقت نہیں آگیا ہے کہ ہمارے حکمران قائد اعظم کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی نئے سرے سے اسلام کے نام پر شیرازہ بندی کریں۔

آئین پاکستان پر عمل کرتے ہوئے اس کی الیکشن ریفارمز اوراسلامی دفعات کے ذریعے یعنی۶۲/۶۳پر عمل کرتے ہوئے ۲۰۱۸ء کے صاف انتخابات کے انتظامات کا عمل ابھی سے شروع کریں۔یاد رکھیں جس نام پر ملکِ پاکستان بنا ہے اسی نام پر عمل کرتے ہوئے اس کوملک کو دشمنوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ملک میں فوراً اسلامی نظامِ زندگی رائج کر دینا چاہیے سودی نظام کو ختم کردینا چاہیے۔

جہاں تک قصور کے گاؤ ں حسین والا کا تعلق ہے اگر ماضی میں۱۰۰ /بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں قتل کر دینا پر جاوید نامی شخص کو برسرئے عام چوک پر لٹکایا جاتا تو آج پھر قصور کے گاؤں حسین والا کے سیکڑوں بچوں کے ساتھ ایسی درندگی نہ ہوتی۔ اس درندگی کے خلاف سینیٹ ،قومی،خیبرپختونخواہ اور سندھ اسمبلیوں نے قرادادیں پاس کی ہیں۔عوام کا مطالبہ کہ قصور کے مظلوم بچوں کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کر کے مظلوم بچوں اور ان کے والدین کو انصاف دلایا جائے۔ تاکہ پاکستان کے عوام انصاف اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور اس سال قائد اعظم کے پاکستان کی جلکی نظر آئے اللہ ہماری آزادی اور ملک کا محافظ ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :