سوہنی دھرتی،قدم قدم آباد مگر کیسے؟

جمعرات 13 اگست 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

67برس قوموں کے بننے بگڑنے کے لئے ایک کثیر مدت ہوتی ہے ، پاکستان جسے ووٹ کی طاقت سے حاصل کیا گیاتھا اس کا آج حال خود ساختہ جمہوریت پسندوں نے یہ کر کے رکھ دیا ہے کہ نہ مقدور بھر بجلی میسر ہے اور پانی بھی ہم سے روٹھتا جارہا ہے ہامری جانب سے قدرت کی دی گئی نعمتوں کی ناقدری سے ہم سے وہ چھنتی جارہی ہیں ۔ہم ہر سال آزادی کا جسن مناتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیا ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہیں؟ یا جس آزادی کی ہمیں ضرورت تھی وہ ہمیں میسر ہے ۔

ہم نہ معاشی طور پر آزاد ہیں اور نہ ہم فکری آزادی حاصل کر پائے ہمارے ہاں فنون لطیفہ آخری دموں پر ہی جس کے بارے کہا جاتا ہے جن معاشروں میں فنون لطیفہ کو نظر انداز یا دیس نکالا دئے دیا جائے وہ معاشرے ہر طرح کی خوبصورتی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)


ابھی حال ہی میں مجھے امریکہ میں، امریکوں کو یوم آزادی مناتے دیکھنے کا اتفاق ہوا کھلے کھلے چہرے ہر غم اور پریشانی سے آزاد اور ہر چہرہ خود اعتماد ہر شہری اپنی ریاست کے انتظام پر پر اعتماد کرتا نظر آتا ہے۔

وجہ امریکہ میں ہر آدمی حقیقی معنوں میں آزاد ہے وہاں رہنے والے ہر کمیونٹی اپنے مذہبی افعال ادا کرنے میں ہر طرح سے آزاد ہے۔ مسجد، گرجا، مندر ساتھ ساتھ ہونے کے باوجود کہیں کوئی اختلاف یا جھگڑا نظر نہیں آتا اگر کہیں اختلاف نظر آتا بھی ہے تو مسلمان کمیونٹی میں ہی نظر آتا ہے جو یورپ کے تمام ملکوں میں فرقوں اور عقیدوں کے نام پر سر پھٹول کرتے نظر آتے ہیں ان کے اس طرز عمل کی بدولت یہ ممالک بھی اب کئی طرح کی پابندیاں لگانے کا سوچنے لگے ہیں۔


دوسری جانب وہاں ہر شہری کو ہر طرح کا مکمل تحفظ فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے تعلیم ، صحت روزگار کے حوالے سے وہاں کوئی پریشانی نہیں پائی جاتی حکومت کو ہر شہری ٹیکس ادا کرتا ہے امیروں سے لیکر کم وسائل والوں پر خرچ کیا جاتا ہے ۔وہاں شہریوں کو اس بات کی شکائت کرتے نہیں دیکھا جاتا کہ حکومت ان کے ٹیکسوں کی رقم کو اپنے اللے تللوں میں خرچ کرتی ہے۔

بلکہ ایسا تصور بھی نہیں ہے اور اگر ایسا کوئی واقعہ سامنے آجائے تو متعلقہ شخص کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی سوشل بائکاٹ سے لیکر قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سان فرانسسکو میں جہاں میرا قیام تھا ایک فیملی باہر جاتے وقت اپنے گھر کو مقفل کرنا بھول گئی جب وہ گھر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا ان کے گھر کے باہر ان کا ہمسایہ کھڑا پہرہ دے رہا تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ جب میں نے دیکھا کہ ان کا گھر کھلا ہے تو میں نے اپنا فرض جانتے ہوئے اس گھر کی چوکیداری کرنے کا فیصلہ کیا جو میرا اپنا زاتی فیصلہ اور فرض تھا ۔

(سنتے ہیں پاکستان بھی کبھی ایسی ہی خوبصورتیوں کا حامل تھا)
حسب حال کسی کا یہ شعر ہے۔
ابھی تک پاوٴں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن تو آجاتا ہے آزادی کا 'آزادی نہیں آتی
کوئی بھی معاشرہ انسانی سوچ کی خوبصورتی سے خوبصورت حسین اور رہنے کے قابل بنتا ہے ہم نے یہ ملک بہت قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس کہ ستیا ناس کر کے رکھ دیا۔

جبکہ عوام بھی اتنی ہی مجرم ہے جتنے حکمران ،اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہمیں کسی سے نہ ہی پوچھنا پڑتا ہے اور نہ کسی کی ہدائت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہم پھر بھی ایسا نہیں کرتے جبکہ ہمارئے پھیلائے ہوئے گند کی وجہ سے ہم بحثیت مجموعی بیمار اور ہمارے ہسپتال برامدوں تک بھرئے ہوئے ہیں جو ”ہنود و یہود اور امریکہ کی سازش ہے“۔

کم تولنا، ملاوٹ کرنا جعلی دوائیاں بنانا انہیں فروخت کرنا یورپی ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جبکہ ہمارے ہاں اس طرز عمل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
قیام پاکستان سے اب تک وطن عزیز کے کسی شعبہ حیات میں استحکام نظر نہیں آرہا کیا یہ ہماری نااہلی ہے یا ہم فہم و ادراک سے عاری ہو چکے ہیں۔ قومی اداروں کا استحکام ہی سوہنی دھرتی پاکستان کا استحکام ہے اور یہی استحکام پاکستان اور اس دھرتی کی بقاء ہے۔

پاکستان کی سونا اگلتی زمینیں آبشاریں،جھرنے سفید پوش قدرتی توانائیوں سے مالامال سرزمین جس طرح سے آج مختلف النوع بحرانوں کا شکار ہے ان میں رہتے ہوئے ہم نسل نو کو کیسا کل دے سکیں گے؟ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یا ہمارے فلاحی منصوبوں کی کجیاں بہرحال اس صورتحال سے پوری قوم بری طرح کرب میں مبتلا ہے۔ امن عامہ کا بحران‘ صحت عامہ کا بحران‘ تعلیمی بحران‘ مالی بحران‘ پانی کا بحران‘ گیس کا بحران‘ بجلی کا بحران بحران‘ بحران‘ بحران در بحران آخر بحران ہی کیوں پاکستانی قوم کا مقدر بنے؟ کیا اس سوال کے جواب میں ہم یہ تجزیہ دے سکتے ہیں کہ ملک کا دس فیصد طبقہ کرپشن سے وطن عزیز کی غالب اکثریت کے وسائل پہ قابض ہے اور اسی طبقے نے رفتہ رفتہ عوامی فلاح کے وسائل کو ختم کر کے ملک کو بحرانوں کی اس موجودہ کیفیت سے دوچار کیا۔


ہمارے ہاں کرپشن کرنے والے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ جو آدمی ان سب آلائشیوں سے پاک ہو اس پر ”شریف“ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے جو افراد معاشرہ کے لئے ناکارہ بن جاتا ہے۔ اس طرح کے چلن کو عام کرنے کے لئے ہم نے یہ پاکستان بنایا تھا اور کیا اس طرح کے رویوں اور جرائم کے ہوتے ہوئے ہم اس دھرتی کو سوہنی دھرتی کے قالب میں ڈھال سکتے ہیں اس بار چودہ اگست آزادی مناتے وقت ہلڑ بازی سے فرصت ملے تو اس سوال پر غور ضرور کیجیے گا کہ قوم بننے کے عمل میں کہاں رکاوٹ ہے اور ملکی ترقی کی راہ میں سپیڈ بریکر کن اداروں افراد اور محکموں نے بنا رکھے ہیں۔ جب تک ہم غور و فکر کر کے اپنی اصلاح نہیں کرتے اس وقت تک سوہنی دھرتی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :