کفن چور اور ہمارے سیاستدان

منگل 11 اگست 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کسی علاقے میں ایک شخص مُردوں کے کفن چوری کر نے کی وجہ سے بہت بد نام تھا۔جب اس کا آخری وقت قریب آیا تو اسے اپنے کئے پر شدید پشیمانی ہوئی ،اُس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور اسے وصیت کی کہ بیٹا ! میں نے تما م عمر مُردوں کے کفن چوری کئے، بہت سے گناہ کئے جس کی وجہ سے لوگوں نے مجھے بُرا بھلا کہا،لیکن میرے مر نے کے بعد ایسے کام کر ناکہ لوگ مجھے اچھا کہیں، میری تعریف کریں۔

بیٹے نے اپنے باپ سے وعدہ کیاکہ وہ ان کی آخری وصیت کے مطابق عمل کرے گا کہ لوگ اسے اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔
کفن چور کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹے نے اپنے باپ سے کئے گئے وعدے پر عمل شروع کر دیا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد اِس نے جو طریقہ کار اختیار کیا اس کے تحت علاقے کا کوئی بھی شخص جب فوت ہوتا تو وہ مرُدے کا کفن اتارتا اور اس کی بے حر متی کر کے قبر کے باہر ہی پھینک جاتا۔

(جاری ہے)

لوگوں نے جب اپنے مُردوں کے ساتھ ہونے والے اس ہتک آمیز حال کو دیکھا تو سب تڑپ اُٹھے اوراِسے بُرا بھلا کہنا شروع ہو گئے اور چیختے چلاتے یہ کہتے جاتے کہ یہ تو اپنے باپ سے بھی زیادہ بُرا نکلا،وہ تو اس سے کئی درجے بہتر تھا کہ وہ کم از کم مُردے کا کفن اتارنے کے بعد اِسے قبر میں دفن تو کر دیا کرتا تھا۔
قارئین ! پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑانے کے بعد مختصر ترین الفاظ میں جو نوٹ تحریر کیا جا سکتا ہے اُس پر کفن چور کی یہ کہانی پوری اُترتی ہے۔

لوگ ، ہر آنے والے حکمران کی ستم ظریفیوں کی وجہ سے سابقہ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو بھول کر یہ بات کہنے پر مجبور ہو تے ہیں کہ ان سے اچھی تو زرداری حکومت تھی ۔جو چور بازاری، کرپشن، حرام خوری کے باوجود عوام کو ٹیکسوں کے گورکھ دھندوں میں پھنسا کر اِن کی زندگی کو عذاب نہیں بنا تے تھے۔
مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہاں لکھنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی عوام دشمن اور ”مٹی پاؤ “پالیسیوں اور الیکشن مہم کے دنوں میں بڑے بڑے نعروں اور دعووں پر کچھ بھی عملدرآمد نہ کر نے کی وجہ سے لوگ،ان کے کسی ایک آدھ اچھے کارنامے کو بھی پسِ پشت ڈالتے ہوئے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے تما م ریکارڈ توڑتی حکمرانی کو اس سے بہتر تسلیم کر نے پر مجبور ہیں۔


یہ مجبوری دراصل حکمرانوں کی اُن پالیسیوں کا تسلسل ہے جس کے تحت تما م تر ثبوت ہو نے کے بعد بھی ملک اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹنے والے ”سیاسی آقاؤں“ کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ صرف ٹریڈ ڈوپلمنٹ پاکستان میں 10، ارب کی کر پشن کے 14،مقدمات میں نامزد ملزمان یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کے خلاف کاروائی پچھلے ایک سال سے اپنی نواز حکومت کی وجہ سے کھٹائی میں پڑی ہے۔

بلکہ تمام تر ثبوتوں اور ان کے فر نٹ مین کے کرپشن کی رقم ان کے اکاؤنٹوں میں بھیجنے کے اقبالی بیانوں کے باوجود اب تک کسی بھی شخصیت کے خلاف کرپشن کا کوئی بڑا کیس سامنے نہیں آیا۔
المیہ تو یہ ہے کہ گذشتہ حکومت اور سندھ میں حالیہ حکومتی عہدیداروں کی کرپشن کے کیسز کو چھپانا اور ان سے در گزر کر نا ، حکمرانوں کی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ روزانہ ہی سندھ میں ایسے میگا سیکنڈل منظر عام پر آرہے ہیں کہ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں تین سالوں تک محکمہ آبپاشی سندھ کی باگ دوڑ اپنے پاس رکھنے والے وزیر اعلیٰ سندھ نے خود ہی محکمہ میں 50، ارب کی کرپشن کا اعلان کر ڈالا ہے۔
قارئین کرام !بات یہی تک رہتی تو شاید عوام ان چیزوں کو بھول جاتے لیکن ٹیکسوں کی مد میں نہ ختم ہو تے ”جگا ٹیکس “ ہیں جو روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔

ان کی زندگیوں کو مزید عذاب بنا تے ہوئے بجلی کے بلوں میں نت نئے ٹیکس لگا کر لوگوں کی جیبوں سے سر جارجز کی مد میں 120ارب روپے اضا فی نکالے گئے ہیں ۔یہ وہی سر چارجز ہیں جنہیں لاہور ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دیا لیکن حکومت نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ان دو سر چارجز کا نام تبدیل کر کے بلوں میں شامل کر وادئیے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ عوام کی جیبوں سے کھربوں روپے نکالنے کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا، لوگ علاج، تعلیم ، روزگار اور زندگی کی ضروریات کے لئے مارے مارے پھرتے اورذلیل ہوتے نظر آتے ہیں ۔


میں جب بھی اپنے سیاستدانوں کی کارکردگی کا بغو ر جائزہ لیتا ہوں تو مجھے کفن چور والی کہانی یا دآ جاتی ہے ۔جہاں ہر آنے والا ،مظالم کی ایسی داستانیں رقم کر تا ہے کہ لوگ پچھلے حکمرانوں کی کرپشن، چور بازاری اور حرام خوری کے تما م ریکارڈوں کو بھول کر اسے مسیحا قرار دیتے ہیں ۔ کاش کہ ہمارے سیاست دان صیح معنوں میں واقعی خادم اعلیٰ کا کرادار اداء کرتے ہوئے لوگوں کی عذاب ہو تی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہوئے پاکستانی سیاست کو ”کفن چور“کی وصیت جیسا نہ بننے دیں ۔ اس کلچر کو پروان چڑھانے کے، اسے یہی دفن کرتے ہوئے پاکستان کی سیا ست کو عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت گذاری کرتے ہوئے مثال قائم کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :