ڈر کی سیاست کا حساب کتاب

اتوار 9 اگست 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

قومی و عالمی میڈیا پر نشر و شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی میں کارکنوں کی گمشدگی اور گرفتاریوں کا نوٹس لینے کیلئے بھارت سمیت 55 ممالک کے ہائی کمیشن اور سفراء کو ای میل کے ذریعے بھجوائے گئے مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کو سفارتی اثرورسوخ استعمال کرکے بازیاب کرایا جائے۔ خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے 12 کارکن پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں‘ کارکنوں کی جانوں کو خطرہ ہے جبکہ اس طرح کارکنوں کو تحویل میں رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کیخلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی جائیگی۔

یہ خط بھارت کے علاوہ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور عرب ریاستوں کے سفارت خانوں کو بھی بھجوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن معصوم اور بے گناہ ہیں جنہیں تحویل میں لیا جانا غیرقانونی ہے۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے بقول یہ خط صرف بھارت نہیں بلکہ کئی ممالک کے سفارت خانوں کو بھیجا گیا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ یا متحدہ قومی تحریک کی بنیاد 1978ء میں ایک لسانی تنظیم کے طور پر رکھی گئی۔

اس تنظیم کے بانی الطاف حسین تھے اور اس کے قیام کا ایک اہم مقصد جامعہ کراچی میں زیر تعلیم اردو بولنے والے طالب علموں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ بعد ازاں اس تنظیم نے اپنے دائرے کو وسعت دے کر اسے صوبہ سندھ کی سیاسی جماعت کا درجہ دے دیا۔ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد ”مہاجر قومی موومنٹ“تھا۔ 1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اپنا نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا اور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔

تشدد اور اس جماعت کا شروع سے ساتھ رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس جماعت نے اپنا حلیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی، حکومت میں شامل ہوئی، اور اپنے آپ کو ملک گیر جماعت کے بطور متعارف کرانے کی طرف مائل ہوئی۔ مگر تشدد کی سیاست سے پیچھا نہ چھڑا سکی، جیسا کہ کراچی میں 2007ء کے فسادات سے واضح ہوا۔ مبصرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت ایک ”مافیا“کے طور چلائی جاتی ہے۔

کراچی میں متحدہ کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ برطانوی حکومت نے بینظیر بھٹو کی اکتوبر 2007ء میں کراچی واپسی سے پہلے الطاف حسین سے بینظیر کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے گفت و شنید کی۔ صدر مشرف کے دور سے قبل سرکاری حلقوں میں اس جماعت کو کراچی میں ہونے والے تشدد کے واقعات کا ذمے دار سمجھا جاتا تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کئی بار مختلف سطحوں پر کریک ڈاوٴن بھی کیے۔

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن ماضی کی حکومتی کارروائیوں کا نشانہ بنے جن میں سے کئی ایک کو تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ انسانی حقوق کی کئی بین الاقومی تنظیمیں جن میں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں ،کراچی میں تشدد کے اکثر واقعات پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ متحدہ نے پرویز مشرف کے فوجی تاخت 2007ء اور ”ہنگامی حالت“کی مخالفت نہیں کی۔

فوجی تاخت کے بعد بااثر امریکی ذرائع ابلاغ نے متحدہ کے ”ترقی پسند نظریات“کی تعریف کے مضامین شائع کیے۔ لیکن اس کے جلد ہی بعد متحدہ کے سربراہ الطاف حسین نے مغرب پسندی کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے ایک امریکہ مخالف بیان جاری کیا۔سیاسی دھارے میں آنے کے بعد ایم کیو ایم نے اپنی توجہ کا مرکز سندھ میں اردو بولنے والے طبقوں کو بنایا۔

چونکہ کراچی اور سندھ کے کئی دوسرے بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے ایم کیو ایم نے وہاں کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔ گذشتہ کئی برسوں سے کراچی ، حیدر آباد ، میر پور خاص ، شکار پور اور سکھر کو ایم کیو ایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ بننے کے بعد اس جماعت نے دوسرے لسانی گروہوں اور طبقوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے منشور میں ایسے پہلووٴں کو شامل کیا ہے جن کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقے سے ہے۔ سندھ میں اس جماعت کو رفتہ رفتہ دوسری زبانیں بولنے والوں کی بھی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ایم کیو ایم نے قومی سطح کی سیاسی جماعت بننے کے لیے اب سندھ سے باہر دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب میں بھی اپنے دفتر قائم کرنے شروع کر دیے ہیں۔

2008ء کے انتخابات میں اس نے پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے، پارٹی کے اپنے دعووٴں کے مطابق، ڈیڑھ سو سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے۔ جب کہ اس سے قبل ایم کیو ایم کو پنجاب مخالف جماعت تصور کیا جاتا تھا۔
ایم کیو ایم نے 2002ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں کی اکثر سیٹیں جیتیں۔ اسی طرح 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی سندھ کے شہری علاقوں کا میدان ایم کیو ایم کے ہاتھ رہا۔

ایم کیو ایم پرویز مشرف کے دور میں ان کی ایک اہم حلیف جماعت تھی۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد سندھ اور مرکز ی حکومتوں میں وہ پانچ سال تک حکومت کا حصہ رہی اور صدر مشرف کی پالیسیوں کے حق میں زبردست آواز اٹھاتی رہی۔ اس پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے صدر مشرف کی خاطر 12 مئی 2007ء کو کراچی میں چیف جسٹس کے دورے کے موقع پر خونی فسادات کرائے تھے۔

ایم کیو ایم اس سے انکار کرتی ہے۔ پرویز مشرف کی حمایت میں ایک نمایاں کردار رکھنے کے باوجود وہ قومی وسائل کی تقسیم، کالاباغ ڈیم اور کئی دوسرے معاملات پر صدر کی پالیسیوں کی مخالفت بھی کرتی رہی۔متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اور قائد الطاف حسین نے 1992ء کے فوجی آپریشن سے قبل ہی خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے لندن میں سکونت اختیار کر لی تھی اور اب ان کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے۔

ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں ہے جہاں سے الطاف حسین پارٹی کے امور کی نگرانی کرتے ہیں اور ٹیلی فونی تقاریر کے ذریعے پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔2008ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بار پھر ایم کیوایم اکثر سیٹیں جیت لیں ہیں اور سندہ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ایم کیو ایم (متحدہ) کی قیادت کی جانب سے اپنے کسی معاملہ میں بھارت کو مدد کیلئے آواز دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے‘ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے برطانوی شہریت رکھنے والے جلاوطن لیڈر الطاف حسین کی متعدد تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں جبکہ وہ چند سال قبل دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران بھی یہ کہہ کر بھارت کو امداد کیلئے پکار چکے ہیں کہ اگر کل کو کراچی میں مہاجروں پر کوئی افتاد ٹوٹی تو کیا بھارت انہیں واپس قبول کرلے گا۔

بلاشبہ ہر سیاسی جماعت کو آئین اور قانون کے تحت اس امر کا حق حاصل ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ اسے سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسکے کارکنوں اور پارٹی عہدیداروں کیخلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے تو وہ یہ معاملہ متعلقہ منتخب فورموں کے ساتھ ساتھ متعلقہ عدالتوں میں بھی اٹھا سکتی ہے۔ ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب حکومت وقت کی جانب سے اسکے سیاسی مخالفین کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے حراست میں لیا گیا تو مجاز فورموں پر انکے آواز اٹھانے سے انہیں ریلیف حاصل ہوا‘ مخالفین کو انتقامی سیاسی کارروائی کا نشانہ بنانے کی زیادہ تر مثالیں جرنیلی آمریتوں کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ ان آمریتوں کے دوران سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے اپنے پروردہ پریشر گروپ بھی تشکیل دیئے جاتے رہے ہیں۔

تاہم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا اپنا کردار سب سے زیادہ متنازعہ رہا ہے جو گزشتہ 22 سال سے ازخود ترک وطن کرکے برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں جبکہ انکی پارٹی گزشتہ کم و بیش 15 سال سے براہ راست یا بالواسطہ قومی اور صوبائی اقتدار کا حصہ بنی رہی اور سندھ کے بلدیاتی اداروں میں بھی اس کا موثر عمل دخل رہا ہے۔

اسکے باوجود مہاجر کے نام پر سیاست کرتے ہوئے انکی محرومیوں کا رونا رونا سوائے اپنے مفاد کی سیاست کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اسکے باوصف بالخصوص کراچی میں بھتہ خوری‘ لینڈ گریبنگ‘ ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے سٹریٹ کرائمز کا جو کلچر پروان چڑھا ہے اس سے ایم کیو ایم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ سندھ اسمبلی میں حکمران پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک قرارداد منظور کرائی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کو ملک واپس لا کر انہیں ملک دشمنی پر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :