نظریہ ضرورت کا طوق پھر گلے پڑ گیا

جمعہ 7 اگست 2015

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام پر غیر متفقہ فیصلہ نے ملکی سیاست میں ایک بار پھر سیاہ تاریخ کو دھرایا ․․ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں ․ مشتمل سترہ رکنی بنچ اپنا فیصلہ سنایا جس کے مطابق ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام کو درست قرار دیا گیا ہے یہ فیصلہ جس میں ․گیارہ ججوں نے عدالتوں کے قیام جبکہ پانچ نے اس․ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے نوٹ لکھے۔

․اور اس طرح نظریہ․ ضرورت کی دوبارہ جنم دیا جس بارے یہ دعوی کیا تا رہا تھا کہ یہ․اب ہمیشہ کے لئے دفن ہو چکا ۔اس طرح سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل، سپریم بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر اداروں کی تمام درخواستیں خارج کردیں اور دہشت گردی کے خلاف مقدمات کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کو درست․ اور․ ناگزیر قرار دیا ،جسٹس جواد احمد نے اس بارے اپنااختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ ملکی آئین مقدم ہے ،پارلیمنٹ نہیں۔

(جاری ہے)

۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم با․ر ایسوسی ایشن نے اپنی اپنی درخواستوں میں کہا تھا کہ فوجی عدالتیں متوازن عدالتی نظام ہوگا جس سے عدلیہ کمزور ہوگی۔۔سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے فوجی عدالتوں کو․ غیر آئیلنی قرار دیا ․ہے اور حقیقلت بھی․ یہی ہے۔اگر عدلیہ میں فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں تو پھر․ دوسرے محکموں میں کونسے افلاطون اور آین سٹائن بیٹھے ہیں․․سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے سے تمام جمہوری اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کی نفی کردی ہے اور انہی اداروں کے خلاف فیصلہ دیا جو سپریم کورٹ اور آئین کی بالادستی․ کے لئے اس کے ساتھ دیتے ہیں اور رہے ہیں،آج․ جو لوگ اس فیصلے پر خوشی کے شادیانے․بجا رہے ہیں جلد ہی وہ نیند سے بیدار ہو جائیں گے اور حقیقت دیکھ لیں گے۔

عقل کی بجائے ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر فیصلوں کا سب کو بہت جلدل پتہ چل جائے گا یہ ایک یونیورسل حقیقت ہے․ کہ فیصلے ہمیشہ عقل اور بصیرت سے ہی ہوتے ہیں ․زور اور طاقت کے فیصلے عارضی ریت کے گھروندے کی مانند ہوتے ہیں
یہ فیصلہ اکیسویں ترمیم کی منظوری کے تناظر میں دیا گیا ہے جس کو اسی سال جنوری2015 میں اس قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا تھا جس کے بہت سے معزز آراکین پر جعل سازی کے ذریعے جعلی تعلیمی اسناد بنانے اور دیگر جرائم․ کے الزامات ہیں․․اکیسویں آئینی ترمیم پشاور کے اس آرمی پبلک سکول پر بدترین دہشت گردی اور معصوم بچوں کے قتل عام کے بیس دنوں بعد منظور کی گئی تھی کہ اور اس کی وجہ ایک ہی تھی کہ سکول پر حملہ کرنے والوں کو ․جلد سے جلد․ کیفر کردار تک پہنچا․یا جائے․ اور اسی کے پس منظر میں فوجی ایکشن شروع کیا گیا اور ․اس کے لئے گمان اور․یقین یہی تھا کہ مو․جودہ عدالتی سسٹم اور جج ان․ مقدمات کی اہلیت نہیں رکھتے ، جان و مال کا خوف یا کسی اور مذہبی جماعتوں کے دباو میں وہ فیصلے نہ کر سکیں ․۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج تک پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف جو مہم شروع ہوئی ہے اور اکیسویں ترمیم کی ہنگامی طور پر منظوری،یہ سب کچھ ․سولہ دسمبر کی بد ترین دہشت گردی کا ہی ردعمل ہے اور اگر یہ کسی ریاست کا قومی فرہضہ ہوتی․ تو پھراس پہلے جو بدترین دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے اسی وقت ہی کاروائی بھی ہوتی اور ترمیم بھی پاس ہوتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور حکومتوں سمیت سبھیل․ک․ل ادارے ان کو دہشت گردی ․کے واقعات کماننے سے انکار کرتے ہیں ریاست کے اس․ جانبدار کردار پر انگلی اٹھ رہی ہے ، ماضی کے․ چند ان واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جس کو دنیا․ تسلیم کرتی ہے کہ وہ بھی دہشت گردی تھی لیکن صرف عقیدہ کی بنیاد پر ان دہشت گردوں کے خلاف لک کوئی کاروائی نہ ہوئی اور اگر ہوئی تو برائے نام ہوئییکم․ اگست2009 کلو گوجرہ میں مسیحی کالونی کو جلا دیا گیا جس میں کئی زندہ بھی جل گئے تھے، 24جون 2006کو جنڈو ساہی، ڈسکہ سیالکوٹ میں احمدیوں کے گھروں: اور عبادت گا ہ کو جلا کر لوٹ لیا گیا اور ان کو انکے اپنے گھروں سے بیدخل کردیا گیا تھا․28مئی2010 کو لاہور میں احمدیوں کی دو عبادت․ گاہوں پر بیک وقت دہشت․ گردی کے حملے ہوئے جس میں 92 احمدیوں کو قتل․ کر دیا گیا تھا ، اسی طرح پشاور میں چرچز پر حملے کئے گئے جس میں درجنوں مسیحی ہلاک ہو ئے،۳مارچ2013کو لاہور بادامی باغ میں مسیحوں کی کالونی کا پھر جلا دیا گیا اور اس سے پہلے 16جولائی1989 کو کھاریاں کے ایک گاوں چک سکندر میں بد ترین دہشت گردی ہوئی اور پورے گاوں میں احمدیوں کے مکانوں کو لوٹ کرآگ لگا دی گئی تھی کو․ئٹہ میں اب تک ہزاروں ہزارہ کمیونٹی کے مردوں کو ہلاک کیا چکا ہے ایک ویب سائٹ پر شائع ہو․نے والے ایک مضمون کے مطابق پاکستان میں ل1963سے لے کر مئی 2015تک 23655 شیعہ کو قتل کیا چکا ہے اور اور یہ تمام واقعات دہشت گردی کے تھے اور ان میں دہشت گرد ملوت تھے جن کو ہار پہنائے جاتے رہے ہیں․ لیکن ان کو جائیداد کے بٹوارے کی لڑائی سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا۔

ا بھی گاہے بگاہے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں،، کیا ان واقعات پر آنکھیں بند کر کے سرد مہری دکھانا ان کے عقیدہ اور مذہب کی وجہ سے تھا اور ہے تو پھر معاف کیجئے گا کہ ریاست اور اس کے․ قوانین اور پالیسیاں بھی دہشت گردی کا سبب بھی ہے ان کی بھی اصلاح اور درستگی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ سب واقعات بھی دہشت گردی کے ہی زمرے میں آتے ہیں اور اس وقت متیازی پالیسی اختیار کی گئی تھی اور قومی اداروں نے کیوں ایسا ایکشن نہ لیا جو اب لیا جا رہا ہے۔

اگر ․غیر جانب دار ․ریاست کے تصور ․کے ساتھ ماضی کے ان ․ دہشت گردی کے واقعات پر کاروائی کی ․گئی ہوتی تو غالب امکان یہی ہے کہ پھر سولہ دسمبر کا واقع بھی نہ ہوتا۔اس وقت سپریم کورٹ کے․ اس فیصلہ کی بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہ ․ عدالتیں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کریں گے ایسی کاروائی جو سول عدلیہ کے بس کی بات نہیں اسی سوچ اور پالیسی کے تحت2014 میں ․سزائے موت کو بھی بحال کردیا گیا جس پر کئی دہائیوں سے پابندی لگ ہوئی تھی۔

روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک خبر․ کے مطابق جول ۴ جون2015کو شائع ہوئی کے مطابق پاکستان میں پانچ ماہ قبل سزائے موت کے قانون کے خاتمہ کے بعد سے اب تک151افراد کو سزائے موت دی گئی ہے․ اور ان میں صرف23․ ایسے مجرم تھے جن پر دہشت گردی کے الزام تھے اور باقی ․114 جن کو․ سزائے موت دی گئی تھی وہ قتل،چوری،اغواء برائے تاوان، ڈکیتی، ریپ ایسے مقدمات میں ملوث تھے۔

اور دہشت․ گردی کے الزام میں سزائے موت پانے والوں میں وہ تھے جنہوں نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر ناکام حملے کئے تھے وغیرہ جبکہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور سابق وفاقی وزیر ․شہباز بھٹی کے ملزمان ابھی تک حکومتی مہمان کی طرح جیلوں میں ہیں اور سانحہ لاہور کے مجرم بھی ابھی تک انصاف کے کٹہریل میں نہیں لائے جا سکے اور یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ․کڑا اور سچا کامتحان بھی ہے رمضان کے بعد دوبارہ پھر سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے لیکن ان میں کوئی بھی دہشت گرد نہیں ہے۔

․حال ہی بدنام زمانہ دہشت ․گرد اسحاق اور اس کے ساتھیوں کو مقابلے میں مارا گیا جس پر اہل وطن نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے سارے ہمدرد انہوں نے اس کے ساتھ برادرانہ غم و دکھ کا اظہار کھل کر کیا لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔اگر دہشت گردوں کو اسی طرح ہی ․کتے کی موت مارنا ہے تو پھر سپریم کورٹ نے․نظریہ ضرورت کا طوق پھر گلے میں کیوں ڈال لیا؟ ڈنڈے میں بہت طاقت ہوتی ہے پھر پاوں میں پڑا جوتا بھی بھاری بھرکم۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ملک میں دہشت گردی امتیازی قوانین اور دہشت گردوں اور ایسی جماعتوں کی سرپرستی کے باعث شروع ہوئی اورپھیلی تھی لہذا اس کا خاتمہ بھی اسی طریق سے ممکن ہے کہ ان سب کو جو سیاسی دھارے میں بھی ہیں ․دہشت گردی کا خاتمہ ہر ایک محب وطن پاکستانی کی دلی خواہش ہے لیکن اس کے لئے محض ڈنڈا ․ہی کافی نہیں بلکہ تھوڑا تھوڑا عقل سے بھی کام لینا ہوگا․ اور سب سے پہلے خود اہم ترین اداروں کے اندر چھپے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہو گا جیسے کہ سابق ․گورنر سلمان تاثیر خود ایسی ہی دہشت گرد․ی کا شکار ہوئے تھیکے ساتھ آہنی ہاتھ سے بلا امتیاز اور خوف کے نبٹا جائے اور پابندیاں لگائی جائیں محض پھانسیوں سے دہشت گردی کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :