ماتم ِوقت کی گھڑی !

جمعہ 7 اگست 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

کیسادورتھا کسی پرظلم وزیادتی ہوتی دل دہل جاتے،کہیں کسی کا قتل ہوجاتا توگرد آلود آندھی چلتی ،آسمان سرخی مائل ہوجاتا۔لوگ ایسی نشانیوں کو اپنے لئے عبرتناک سمجھتے اورقد ر ت کی طرف سے ناراضگی کا اشارہ اوروارننگ سمجھتے۔لوگ اس صورتحال سے پریشان اور خوفزدہ ہوجاتے۔وہ توبہ تائب ہوکر اپنے وقت،طریقے اورحیثیت کے اعتبار سے صدقہ و خیرات کرتے ، اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگتے، موت ،اللہ کے سامنے پیشی اورجوابدہی کے خوف سے سیدھی راہ کی طرف رجوع کرتے ۔

یہ کیفیت اک مدت تک ان کے ذہن وقلب پر طاری رہتی۔ آج ہم جب کہ روزانہ اموات کی خبریں سنتے اورجنازے اُٹھتے دیکھتے ہیں مگر نہ توہمیں اپنی موت یاد ہے اور نہ جوابدہی کاخوف ہے۔ترجمہ :-وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم کومٹی سے پیدا کیاپھرتمھارے لئے موت کا ایک وقت مقرر کردیا اور(قیامت کی)ایک مدت اوربھی اس کے پاس مقررہے مگرتم لوگ ہوکہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔

(جاری ہے)

وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اورزمین میں بھی،وہ تمھارے ظاہروپوشیدہ سب حال جانتا ہے اورجوبرائی یابھلائی تم کماتے ہواسے بھی وہ خوب جانتاہے۔(سورة الانعام)
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں ، ایک روزسرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم نے منبرپردوران ِوعظ فرمایالوگوتم میں سے کوئی شخص رات نہ گزارے مگر موت کو اتنا قریب سمجھے، گویاموت اس کی آنکھوں کے سامنے ہے (طبرانی)
انسان آج ترقی کی اُس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ ساری دُنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج یا اکائی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔

سارے عالم کے حالات اس کے سامنے ہیں۔اس ترقی یافتہ دور میں انسان نت نئی ایجادات سے مکمل طورپرفیضیاب ہورہا ہے توپھر اس سب کے باوجود پریشان حال کیوں ہے؟قدیم وقتوں میں لوگ کم علم تھے لیکن دل میں درد اور خوف رکھتے تھے شاید یہی وجہ ہے وہ لوگ عافیت میں تھے ،انہیں ایک دوسرے کااحساس تھا،سب کے دُکھ،درد اورغم سانجھے تھے ،وہ اس قدر پریشان حال اور غیرمحفوظ نہ تھے اورہم باوجود جاننے،سمجھنے کے ظلم وستم روارکھنے میں بے رحم اوربے خوف ہیں۔

اسی لئے اب سب کچھ اُلٹ ہو رہا ہے ۔ موجودہ دورکے انسان نے کیاخوب ترقی کی کہ آج حق تلفی ،ظلم ،ناانصافی اورقتل وغارت گری ہماری پہچان بن چکی ہے
آج دُنیا ہم پر غالب آگئی اور مال ودولت کی حرص اور لالچ نے اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دُنیا سمیٹنے اورمال اکٹھا کرنے کی حرص نے عوام سے لیکر خواص تک سب کو اندھا کردیا ہے۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہی"حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااے میرے امتیو! میں تمھارا پیش رو ہوں۔

اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں۔ اورمیں بخدا یہاں بیٹھے ہوئے اپنے حوص کوثرکو دیکھ رہا ہوں۔اور بلاشبہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے عطافرمادی گئی ہیں۔ اور مجھے خدا کی قسم اس بات کا ذرا بھی خدشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے۔البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم دُنیاکی دولت اور سامان عشرت کوجمع کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گی۔

"
دور ِجدیدکا انسان بے حیاء، بے رحم، اخلاقی پستی و تباہی کا شکاراورمال ودولت کی حرص اور لالچ میں درندگی اور حیوانیت کی حدوں سے بھی گرچکا ہے ۔یہ اپنی اصلیت کو بھول کر، فطرت سے بہت دور مصنوعیت کا عادی ،سخت دل مگراپنے آپ کو روشن خیال کہلانے کاشوقین انسان جو دُنیا بھرکے حالات اورمعلومات سے توباخبرہے مگر اپنے اردگرد کے مجبوروبے کس،ضرورت منداوربے سہارالوگوں،حاجت مندرشتہ داروں حتی کہ اپنے ضعیف العمروالدین کی ضرورتوں کی بجاآوری سے بھی غافل وبے خبرہے۔


ہونا تویہ چاہیے تھا کہ تیزی سے ترقی کرتے دور میں انسانیت اپنی معراج کو پہنچتی۔ ہر طرف سکون ہی سکون ہوتا۔ کوئی کسی پر ظلم روا نہ رکھ سکتا۔ کہیں کسی کی عصمت دری نہ ہوتی ، کوئی کسی کا حق غصب کرتااور نہ ہی کوئی کسی کی ناحق جان لیتا۔توپھریہ کون سی اور کیسی ترقی ہے ۔یہ انسان کی ترقی اور معراج نہیں بلکہ یہ گمراہی اور ذلت کی انتہا ہے۔

جسے ہم ترقی کہہ اور سمجھ رہے ہیں یہ تنزلی ہے۔ہمارے اعمال معاشرے میں بگاڑاورعدم استحکام کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ہماری اخلاقی گرواٹ کی حالت یہ ہے کہ اپنے وقتی مفاد کی خاطر ہم نے کھانے پینے اورادویات تک میں ملاوٹ کردی ہے اور ناپ تول میں کمی تو روزمرہ کا معمول بن چکاہے ۔ہرطرف دُکھ ،مصبتیں اورپریشانیاں ہیں۔ہرطرف آہ وبکاہ اورکسی کی جان و مال، عزت وآبروتک محفوظ نہیں۔ہماری اجتماعی بداعمالیوں کے سبب آج معاشرہ مکمل طور پرتبا ہ وبرباد ہوچکا ہے اور ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کوچھو رہے ہیں۔
کسی مسافرکو
اب دماغِ سفر نہیں ہے
یہ وقت زنجیر ِ روز وشب کی
کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے
ماتم ِوقت کی گھڑی ہے ( فیض احمدفیض)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :