فوج اور عدالتیں

جمعہ 7 اگست 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

یہ اکیسویں صدی ہے ، اور اگر نہ بھی ہوتی تب بھی۔ کوئی ذی شعور بندوق چلانے کی تربیت حاصل کرنے والے محافظ کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو دینے کا نہیں سوچے گا، مگر کیا کیا جائے عسکری ذہن کی پرواز کا۔ خواہ کوئی باقاعدہ فورس کا حصہ، یا جس نے کبھی عسکری سرگرمی کی ہو۔ یا صرف اس کے دماغ میں شدت پسندی نے گھر بنایا ہو، اور اس نے حل یہی نکالا ہو کہ اپنے مخالفین کو چن چن کر ماراجائے، ان سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ عقل سے کام لیں گے۔

انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کا بندوق برداروں کا کیا معلوم؟۔ غیر معمولی حالات اور غیر معمولی فیصلوں کے نام پر پہلے پارلیمان نے طاقت کے سامنے ہاتھ کھڑے کیے اور پھر سپریم کورٹ کے گیارہ ججوں نے کہہ دیا کہ جی حضور، بجا فرمایا ، فوجی عدالتیں ہی مسئلے کا حل ہیں۔

(جاری ہے)

اب سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمان کو ہر قسم کی آئین سازی اور ترامیم کا لامحدود اختیار ہے ، اور دوسری جانب جنگ لڑنے کی تربیت حاصل کرنے والے سپاہی کو جج کی کرسی پر بیٹھ کر عدالت لگانے اور فیصلے سنانے کا بھی حق ہے ، تو جناب، آپ سپریم کورٹ میں کیا کررہے ہیں؟۔

یہ سب ڈرامہ کس لیے؟۔ آپ نے اکیسویں صدی میں یہ تھیٹر اس لیے لگایا ہے کہ ماہانہ آٹھ لاکھ پنشن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لیں گے۔ ( جی ہاں، چیف جسٹس صاحبان کی پنشن بھی آٹھ لاکھ ماہانہ ہے، اور دیگر مراعات اضافی ہیں)۔
سولہ دسمبر اکہتر کو نوے ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کچھ نہیں بدلا، کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ ہتھیار ڈالنے والا جنرل امیر عبداللہ نیازی سنہ دو ہزار چار میں اپنی موت مرا۔

وہ روزانہ شام کو راول پنڈی کی سڑکوں پر اپنے کتے کے ساتھ واک کرتا مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کو ہاتھ لگا سکے۔ اور پھر اس ملک کی تاریخ میں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کا دن آیا جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک سو چالیس معصوم بچے قتل کردیے گئے، آج تک اگر کسی غفلت برتنے والے محافظ کو سزا ہوئی ہو تو مجھے بھی آگاہ کیا جائے؟ مگر اپنی صفوں کا جائزہ لینے کی بجائے بحث کارخ صرف ایک نکتے کی جانب موڑ دیا گیا کہ عدالتیں دہشت گردوں کو سزا نہیں دے سکتیں۔

اور پھر جرنیلوں نے اپنی کوتاہیوں کا بدلہ اس صورت میں لیا کہ رضا ربانیوں سے فوجی عدالتوں کے قانون پر دستخط کراکے عوام کے سامنے آنسو بہانے کا بھی موقع بھی دیا۔ دنیا کے سب سے بڑے عقل مندوں نے ثابت کیا کہ جو کام وہ دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں بندوق کے سہارے نہ کرسکے وہ اب اپنے قلم کے ذریعے عدالت میں بیٹھ کر ایسے کرینگے کہ دہشت گردی کا ناسور دوبرس میں ختم ہوجائے گا۔

کیا سادگی ہے ، کیا عیاری ہے اور کیا پرکاری ہے۔
تو کیا آپ کا خیال ہے کہ یہ سب اتنی آسانی سے ہی ہوگیا؟۔ اس کیلئے پس پردہ کوئی سوچ، کوئی خیال نہیں تھا؟۔ طاقت کے محور و مرکز نے سب کچھ طے کررکھاہوگا۔ جتنی تیزی سے سولہ دسمبرکے سانحے کے بعد تمام معاملات کو سمیٹ کر ایک رخ پر ڈالا گیاوہ اس خیال کو واضح کرتے ہیں۔ سولہ دسمبر کے بعد جس طریقے سے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا گیا، کسی سوال اٹھانے والے کو آگے نہیں آنے دیا گیا اس سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ردعمل طے شدہ تھا۔

کیا یہ سوال جائز اور قانونی نہیں کہ غفلت کس کی تھی؟۔ کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ حضور ، آپ جب حفاظت میں ہی ناکام ہوگئے تو ذمہ داری کیوں قبول نہیں کرتے؟۔ اور اگر تمام تر وسائل کے باوجود ہمارے بچوں کو دہشت گرد وں کے حملے سے نہیں بچا سکے تو عدالت کی کرسی ہی کیوں چاہیے؟۔ سوالات بہت سارے ہیں، اتنے کہ جواب دینے والے تھک جائیں مگر جب سوال کرنے کی ہی اجازت نہ ہوتو کیا کیا جائے؟۔

وہی مدعی ہیں، انہی کو منصف کی کرسی بھی عطا کردی گئی ہے تو ہماراسوال کون سنے گا؟۔ لیکن صرف اس ایک وجہ سے اختلاف کرنے والی آواز کو خاموش رہنے کیلئے نہیں کہا جاسکتا۔
دہشت گردی کاخاتمہ کس کی خواہش نہیں۔ کون نہیں چاہے گا کہ ملک اس ناسور سے پاک ہوجائے۔ اختلاف مگر طریقہ کار پر ہے۔ اگر دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ریاست نے بھی وہی رویہ اختیار کرنا ہے جو جنگل کے قانون میں ہوتا ہے تو پھر گیہوں سے ساتھ گھن پسے گا اور کسی بھی انصاف پسند کو یہ گوارا نہیں ہوگا۔

اس بات کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی کہ آپ شک کی بنیاد پر ملزم کی ہڈیوں کا سرمہ بنادیں۔ چونکہ آپ کی سوچ ہی یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں صرف’دہشت گردوں‘ کے مقدمات سنے جائیں گے تو یہی اصل مسئلے کی جڑ ہے ۔ آپ نے عسکریت پسندی کے شبہے میں گرفتار شخص کو مقدمہ چلانے سے قبل ہی کہہ دیا کہ یہ ’دہشت گرد‘ ہے اور اس کا مقدمہ فوجی عدالت ہی سنے گی۔

جب ٹرائل اور سزا سے قبل آپ اسے ملزم تسلیم نہیں کررہے، بلکہ اسے مجرم اور دہشت گرد قرار دیا ہے تو پھر اتنے تردد کی کیا ضرورت۔ پنجاب پولیس کی طرح مقابلے میں پار کردیجیے۔ آپ سے کون پوچھ سکتاہے۔
جج صرف وہی شخص ہوسکتاہے جو فریق نہ ہو۔ وردی پہننے والا سپاہی تو اس معاملے میں مدعی ہے۔ اسی کو منصف بھی بنادیا گیا ہے۔ اس کی تو انصاف فراہم کرنے کی تربیت ہی نہیں ہوئی۔

وہ تو کسی بھی ایسے شخص کو دشمن ہی سمجھے گا جس پر یہ الزام ہو کہ ریاست اور سیکورٹی اداروں کے خلاف لڑنے کا ماہر ہے۔ اور کیا ہم ماضی کو بھول جائیں؟۔ وردی والے ججوں نے تیز تر انصاف کی فراہمی کے دوران کیسے کیسے کارنامے انجام دیے تاریخ کے صفحات اس کے گواہ ہیں۔ اگر کسی کو انگریزی پڑھنا نہیں آتی تو ملک کے بڑے اخبارات ڈان اور دی نیشن کے اداریے ترجمہ کراکے پڑھ لے۔

نظریہ پاکستان کے علم بردا رنوائے وقت گروپ کے انگریزی روزنامے نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے سے طاقت کا محور فوج کو بنادیا گیاہے، فوج کے پاس اب اپنی معیشت ہے، میڈیاہے، فارن سروس ہے، قانون پر عمل کرانے والی فورس یعنی رینجرز ہے(کراچی کی مثال سامنے رکھیں) اور اپنی عدالتیں ہیں۔ جو اس کو اب اپنے اندر ایک ریاست بنادیتی ہیں۔


بظاہر تو فوجی عدالتوں کا یہ متوازی نظام قانون اور آئین کے مطابق صرف دوبرس کیلئے ہے مگر انگریزی روزنامے ڈان کے اداریے میں حکومتی رویے کو بنیاد بناتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ شاید مستقبل قریب میں ختم نہ ہو۔ حکومت کی جانب سے ملک کے عدالتی نظام کی بہتری کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کہیں نظر نہیں آرہی اور یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتیں دوسال بعد بھی ختم نہیں ہوسکیں گی۔

فوجی عدالتیں بنانے کی پارلیمان کی اپنی خواہش ہی درست نہ تھی۔ پشاور اسکول واقعہ کے بعد فوجی قیادت کا دباؤ ہی اصل محرک تھا، اور دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک اور نظام میں اس طریقے سے اور ایسی وجوہات کی بنیاد پر فوجی عدالتیں قائم نہیں کی گئیں۔
معلوم نہیں ہم ایسی بحث میں کیوں پڑ گئے۔ آئیے اس بات پر شادیانے بجائیں کہ چار ارب روپے کی کرپشن کرنے والے جرنیلوں میں سے ایک کو ریٹائرمنٹ کے بعدتمام مراعات سے محروم کردیاگیاہے، اور ایک دوسرے ریٹائرڈ جرنیل کو ’سرزنش ‘ کی گئی ہے۔

اگر صرف چار ارب کے معاملے پر اس قدر’ سخت سزائیں‘ دی جاسکتی ہیں تو پھر یقینا فوجی عدالتیں ہی بہتر ہیں، کیونکہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو ان فوجی جرنیلوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اگر آپ کو اب بھی سمجھ نہیں آئی تو یقین مانیں آپ خوش قسمت ہیں اور اگلے پچاس برس سکون کے ساتھ جئیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :