حروفِ دشنام

جمعرات 6 اگست 2015

Asim Ikram

عاصم اکرام

گالی ایک ایسا تجربہ ہے جس سے اس دنیا میں بسنے والے عام انسان کسی صورت مستثنیٰ نہیں رہ سکتے، بزرگ فرماتے تھے کہ لذتِ کام و دہن سے آشنائی کے بعد انسان کو سب سے زیادہ مزہ بخشنے والی شے گالی ہے۔ دشنام طرازی ہر معاشرے کے ہر دور میں ایک موزوں وسیلہء اظہار کے طور پر عالمگیر سطح پر اپنی اہمیت منوا چکی ہے۔ ہر قوم نے اپنی اپنی فکری بساط کے مطابق گالیوں کا ایک معقول ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑا اور یہ واحد سلسلہ ہے جسے نئی آنے والی ہر نسل نے ارتقاء کی نئی بلندیوں سے رُوشناس کروایا۔

ہمیں تو جب سے معلوم ہوا ہے کہ دشنام طرازی لغو ہوتی ہے تب سے کسی بھی لفظ کے لغوی معانی دیکھنے کی جرات نہیں ہوسکی، خواہ وہ کتنا ہی لغو کیوں نہ ہو
جیسے کئی علوم سینہ بہ سینہ چلتے ہیں،شعلہ کلامی کا یہ سلسلہ بھی کینہ بہ کینہ ہی چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے اثرونفوز میں کبھی کمی نہ آسکی
جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے بھی گالیوں کے مخصوص اوصاف ہیں، فرانسیسی گالیاں کان لال کرتی ہیں تو ہسپانوی گالیاں گال لال کرنے میں مجرّب ہیں۔

(جاری ہے)

انگریزی گالیاں چہرہ لال کرتی ہیں جبکہ اردو اور پنجابی گالیاں آنکھیں لال کرتی ہیں اور آنکھوں پر ہی کیا موقوف، ان کی مدد سے ایسے ایسے نہاں مقامات بھی لال ہوجاتے ہیں جن کے بیان اور نشاندہی سے عاجز بوجوہ معذور ہے۔ ایسے ہی قبیح الفاظ اگر کسی فارسی بزرگ کے منہ سے سن لیں تو لگتا ہے گویا پندونصائح کا دریا موجزن ہے، برا ماننے کی بجائے سر دُھننے کو جی چاہتا ہے۔


کسی زمانے میں تو اس قدر مسجع و مقفع طریقے سے گوش گزار کی جاتی تھیں کہ دشنام الیہ سن کر ناراض تو درکنار، بے مزہ تک نہ ہوتے تھے، کسی اور کا ذکر کیا کریں مرزا غالب جیسی شخصیت نے ان حقائق کی تائید میں کہہ دیا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
ناقدین اسے جملہء معترضہ بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ ان کا اور غالب کا ذاتی معاملہ ہے
مغرب میں گالیاں صورتِ حالات کے نتیجے میں دی جاتی ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں ان کا مقام روزمرّہ زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہے اور لڑائی کے دوران اسے معتوب کو غیرت دلانے کی بجائے اختلافی فقروں میں خوبصورتی پیدا کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔


تبادلے کی صورت اگر زبانی ہو تو طرفین کی جانب سے گرامر،زوزمرّہ و محاورہ، وزن اور تذکیروتانیث کی نزاکتوں کو مدِّ نظر رکھنا کاہلی اور کم علمی کے زمرے میں آتا ہے۔ تحریری معاملے میں البتّہ صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے، دورانِ تحریر، راقمِ دشنام، وصول کنندہ کے مرتبے، خاندان کے علاوہ اس کی معاشی و کاروباری اور پیشہ ورانہ حیثیت کو مدِّنظر رکھنے کا التزام کرتا ہے اور سیاق و سباق کے پیشِ نظر ان موزوں گالیوں کا انتخاب کرتا ہے جس سے وصول کنندہ کا پندارِ انا، غصّہ اور جواب دینے کا حوصلہ مجروح نہ ہونے پائے۔

مشاہدے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پڑھے لکھے اور نفیس مزاج کے لوگ جاہل اور گنواروُ قسم کی گالیوں پر بالکل کان نہیں دھرتے بلکہ آدمی جتنا سوفسٹی کیٹڈ ہو اسے بالرتتیب حیرانی، غیرت اور غصّہ دلانے کیلئے ویسی ہی سوفسٹی کیٹڈ گالیوں سے دعوتِ غضب دی جاتی ہے
چالاک لوگ پڑھے لکھے آدمی کو دو سے زائد گالیاں نہیں دیتے کیونکہ ایسے لوگوں میں پہلی گالی پر حیرانی، دوسری پر ہیجانی اور تیسری گالی کے بعد ہذیانی کیفیت طاری ہوتی ہے اسلئے دونامناسب حروف کے مناسب انتخاب سے معاملہ قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔


ماضی قریب میں منہ سے مغلظات (جن کی کثرت سفوُفِ مغلظ کے استعمال پربھی منتج ہو سکتی ہے) کا دریا بہانے کیلئے کسی نہ کسی نامعقول وجہ کے ساتھ ساتھ طبیعت کی نا معقولیت ایک لازمی شرط تھی مگر آج کے جدید دور میں لغویات میں قادرالکلامی کیلئے صرف ایک ٹویٹر اکاؤنٹ اور ایک سیاستدان درکار ہوتا ہے، غیر سیاسی حضرات کیلئے یہی پیشکش ثانی الذکر کو کسی بھی مخالف سے تبدیل کرنے کے بعد جوں کی توں برقرار رہتی ہے، اس حوالے سے سائنس کی افادیت کے تو ہم بھی قائل ہو چکے ہیں
پڑھے لکھے لوگ چونکہ سرِّعام گالیاں دینے کو معیوب سمجھتے ہیں اسلئے وہ اپنے ناآسودہ جذبات اور نامکمل خواہشات کے اظہار کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیتے ہیں، پہلے پہل ان کا سلسلہء تخاطب سیاسی لیڈروں تک محدود رہا مگر رفتہ رفتہ ان لیڈروں کے کارکنان اور مداحین کو بھی اس محبت کے قابل سمجھ لیا جاتا ہے، اب یہ سلسلہ انفرادی نہیں بلکہ گروہی شکل اختیار کرگیا ہے، ایک گروہ اپنی تمام تر غلاظتی توانائیوں کو برروئے کار لاکر مخالفین کو ایسی ایسی گالیوں سے نوازتا ہے کہ ہر گالی اپنے مطالب میں گنجینہءاسرار کا طلسم لئے ہوتی ہے اور غوروفکر کرنے پرایک ایک لفظ سے دعوتِ ترغیب عیاں ہوتی ہے۔

ایسے معاملات میں سوقیانہ پن، کثافت اور برہنگی کی شرح، بلحاظِ شرحِ خواندگی بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس مقام پر جا پہنچتی ہے جہاں حسرتیں شجرہء نسب میں داخلے کو بے قرار ہوتی ہیں اور بلااجازت مختلف شجرہ ہائے نسب کو آپس میں خلط ملط کردیتی ہیں۔ شجرہء نسب جیسا بھی ہو، خواتین کی شرکت و معاونت کے بغیر تکمیل نہیں پاسکتا اسلئے بعض خواتین بھی اس معاملے میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی دیکھی جاتی ہیں اور مساوات کے اصولوں کی ایسی زندہ مثال فی الحال کسی اور شعبہء زندگی میں دیکھنےکی ہمیں تو حسرت ہی ہے۔


اپنے جذبات کے ناقابلِ اشاعت اظہار کیلئے الفاظ کے ایسے ناگفتنی انتخاب پر ہمیں بظاہر تو کوئی اعتراض نہیں کہ الفاظ سچ میں ہمارے ظرف کا اصل پہناوا ہوتے ہیں مگر ہمیں اصل قلق اس بات کا ہے کہ ہم جو کام سنِ بلوغت سے گزرجانے کے بعد بھی بالترتیب شرماتے، گھبراتے اور سٹپٹاتے ہوئے کیا کرتے تھے، نئی نسل کے نوجوان دشنام طرازی کے وہی شاہکار ہنستے کھیلتے، بلا دقّت و جھجک ایسی روانی سے تخلیق کئے جارہے ہیں کہ بخدا اپنی کم مائیگی پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کو جی چاہتا ہے۔


صاحبو، ہم تو پرانی نسل کے بزرگوں سے آج بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں کیا دیا؟ مگر آنے والی نسلوں کو ہم سے اتنا پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنی پڑے گی کہ ہمارے اخلاق و کردار کے تمام ثبوت اشاعت شدہ شکل میں دستیاب ہوں گے اور ہماری تردید کی تمام تر کوششوں کا اثر اتنا ہی ہوگا جتنا ہمارے بزرگوں کی وضاحتوں کا ہوسکا۔
اپنی زبان کے انگاروں سے جہنم مت تخلیق کیجئے، نفرتوں کے فولادی عفریت کو ٹکڑا ٹکڑا برداشت کے سانچے میں ڈال کر محبتوں میں ڈھالنے کی سعی کیجئے
کام تھوڑا کٹھن ضرور ہے مگر دائمی فوائد کا حامل ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی زبان کے شر سے محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :