ٹوٹل سیاپا

پیر 3 اگست 2015

Hussain Jan

حُسین جان

کس چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ہمیں ہمارے ہی سیاسی و غیر سیاسی شعبدہ بازوں نے،دُنیا کا کوئی بھی غیر معروف سروئے اُٹھا کر دیکھ لیں ہم پہلے پانچ نمبروں پر ہی آتے ہیں ،غربت ہو،جہالت ہو، بے راہ روی ہو ،عورتوں پر ظلم ہو، بچوں سے مشقت ہو، قتل و غارت ہو،بے راہ روی وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان صاحب کے دھرنے کو ختم ہوئے تقریبا 10ماہ ہونے کو ہیں۔

کمیشن کی رپورٹ آچکی، خان صاحب اس کو مان چکے ، لیکن ہماری حکومت کے وزرا اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار،وزیر مشیر، سب کام چھوڑ کر ابھی تک دھرنے کے دم چھلے کو پکڑئے بیٹھے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان deseatہونے کے ڈر سے حکومتی وفاداروں کے آگے سرخم تسلیم کر لیں گے، تو ایسے لوگوں کو یقینا عمران خان کے بارے میں پتا ہو گا، وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں ، اُن کو یقین ہیں اگر پارلیمنٹ میں نہ بھی رہے تو ایک اچھے پوزیشن لیڈر کا کردار وہ ادا کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

عمران خان جیسے لیڈر کے لیے اسمبلی میں بیٹھنا ضروری نہیں کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں اپنے ورکروں کی اسمبلی لگا سکتے ہیں۔جاوید ہاشمی صاحب بزرگ سیاستدان ہیں مگر اس عمر میں اُن کو عزت راس نہیں آئی وہ ہاتھ دھو کر پی ٹی آئی کے پیچھے پڑئے ہوئے ہیں ،بیماری نے اُن کے دماغ پر کافی اثر کیا ہے اسی لیے اپنی کہی ہوئی بات خود ہی بھول جاتے ہیں ۔دھرنوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا، جس کے پیچھے کسی فوجی کا کوئی کردار نہیں، لیکن میڈیا میں بیٹھے کچھ شرارتی قسم کے لوگ ملک میں انتشار کی سی کفیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے بہت سے سنےئر وزرا روز رات کو ٹاک شوز میں جلوا گر ہوتے ہیں۔ ان کی قسمت اچھی ہے کہ ان سے کبھی کسی اینکر نے کارگردی کے بارئے میں سوال نہیں کیا، بلکہ جب بھی پوچھا جاتا ہے ، دھرنے کے مختلف پہلووں کے بارئے میں پوچھا جاتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ حکومت دھرنوں کی آڑ میں پانچ سال گزرانا چاہتی ہے جو کہ ایک مشکل کام ہے۔ میاں صاحب نے پی پی پی حکومت کو فرینڈلی اپوزیشن کے زریعے پانچ سال عوام پر مسلظ کئے رکھا، شائد اُن کو یقین تھا کہ جب ان کی حکومت آئے گی پی پی پی کا رویہ بھی اُن کے ساتھ دوستوں بلکہ رشتہ داروں جیسا ہو گا، اس میں شک بھی کوئی نہیں کہ پی پی پی کا رویہ حکومت کے ساتھ اپوزیشن والا نہیں بلکہ رشتہ داروں والا ہی ہے۔

کسی نے سوچھا بھی نہیں تھا کہ عمران خان کی پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی حقیقت بن کر اُبھرئے گی۔ عمران خان کے چاہنے والوں کو اُن کا وزیر آعظم نہ بننے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ ہو جانتے ہیں عمران خان حکومت میں نا ہوتے ہوئے بھی حکومتی لوگوں کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں جبکہ پی پی پی میں اتنا دم خم نہیں کہ عوام کے حقوق کے لیے آواز اُٹھا سکے۔

ہمارئے وزیر اطلاعات بھی بادشاہ آدمی ہیں، آئین میں اُن کی ڈیو ٹی تو یہ ہو گی کہ عوام کو حکومتی کارکردگی کے بارئے میں اطلاعات پہنچائیں،عوام کو بتائیں کہ کون سی وزات کیا کام کر رہی ہے،حکومت عوام کے مفاد میں کون کون سے منصوبے شروع کر رہی ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر حکومت کہا کھڑی ہے۔ مگر وزیر موصوف ہر وقت اپنے من پسند چینل پر بیٹھ کو تحریک انصاف کی خامیاں بیان کرتے رہتے ہیں، وہ کبھی عمران کی کی جوتی کے بارئے میں تو کبھی اُن کے کپڑوں کے بارئے میں معلومات دیتے نظر آتے ہیں۔


کمشین کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے الیکشن منظم دھاندلی زدہ نہیں تھے، اور موجودہ حکومت کو دیا گیا عوامی مینڈیت بھی جعلی نہیں تھا۔ چلو اچھا ہوا جو تلوار حکومتی جماعت پر لٹک رہی تھی اُس کا خطرہ ٹل گیا، اب حکومت کو چاہیے کہ اپنے معاملات کی طرف دھیان دئے،مسلم لیگ کو حکومت میں آئے دو سال ہو چکے ہیں، لیکن عوامی مسائل جوں کے توں ہے۔ الیکشن سے پہلے چھوٹے میاں صاحب نے عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے مختلف تاریخیں د ی تھیں جو تقریبا تمام کی تمام پوری ہو چکی۔

پھر بڑئے میاں صاحب نے کہا کہ وہ تو ہمارے عزیزم برادر نے جوش خطابت میں یہ وعدئے کر لیے تھے۔ یعنی عوامی مسائل ان کے لیے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ ابھی تک کوئی ایک بڑا منصوبہ بھی بجلی کا شروع نہیں کیا گیا، بیانات تو اتنے بڑئے بڑئے دیے گئے تھے کے عوام امید لگائیبیٹھے تھیکہ حکومت اپنے آغاز میں ہی تمام مسائل حل کر دے گی۔
اسی طرح خادم آعلیٰ صاحب نے عوام سے تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔

میاں صاحب کو پنجاب پر حکومت کرتے تقریبا 12سال ہونے والے ہیں مگر وہ آج تک اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ آج بھی عام آدمی پولیس سے خوف زدہ رہتا ہے۔ پولیس والوں کا رویہ عوام سے ابھی تک دوستانہ نہیں ہو پایا، تھانوں کی حالت جو ں کی توں ہے۔ میاں صاحب کو اتنا تو پتا ہو گا کہ ایک دو ماڈل تھانے بنانے سے حالات بہتر نہیں ہونے والے، جب تک پولیس والوں کی باقاعدہ تربیت نہ کی گئی یہ کبھی بھی عوام دوست رویہ نہیں اپنا سکتے۔

چہرئے مہرئے سے یہ اتنے کرخت ہو چکے ہیں کہ گالی کے علاوہ بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، مزئے کی بات تو یہ ہے کہ سی ایس ایس کر کے آئے ہوئے افسران بھی کچھ عرصے بعد روایتی پولیس والوں جیسے ہو جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کا یہ وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔
آج کل بجلی اور گیس کے بلوں پر Say no to corruptionکا لیبل چھاپہ جا رہا ہے، دُنیا کا کوئی بھی پاگل شخص اس ملک میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا اس ملک میں چند الفاظ لکھ دینے سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔

اگر کرپشن ختم کرنی ہے تو کرپٹ لوگوں کو سزا دیں۔ یہ جو مختلف سرکاری اداروں میں بیٹھ کر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ،سائلوں کو کئی کئی سال خوار کرتے ہیں جب تک ایسے مگر مچھوں کو سزا نہیں دی جائے گی کرپشن ایسے ہی ہمارا خون چوستی رہے گی۔ ماتحت عدالتوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے سرکاری اداروں میں کرپشن یوں ہوتی ہے جیسے مفت میں بٹتی کھیر،کرپٹ عناصر کو پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں کہ ہر ادارئے میں 90فیصد لوگ کرپٹ ہی ہیں۔


رمضان گزر چکے، رمضان بازاروں کی جگہ پرانے بازار اپنی آب و تاب کے ساتھ عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ٹماٹر جو رمضان میں 37روپے کلو بک رہے تھے اپ 80روپے کلو بک رہے ہیں، اسی طرح تمام سبزیوں کے ریٹ دگنے کر دیے گئے ہیں۔ چینی پھر پرانی روش پر آچکی ہے۔ کیا حکومت کا فرض صرف سال میں ایک مہنہ ہی مہنگائی پر نظر رکھنا ہے، جس کا جو دل کرتا ہے اُس ریٹ پر چیزیں فروخت کر رہا ہے۔

اب نہ کہیں کوئی حکومتی رکن نظر آتا ہے نہ ہی کوئی پرائس کنٹرول کمیٹی کے اراکان۔ لگتا ہے عید کی چھٹیاں ابھی چل رہی ہیں۔ دیکھیں کب ختم ہوتی ہیں۔
تعلیم کی حالت بھی درگوں بنا دی گئی ہے، اخبارات میں بڑھے بڑھے اشتہارات دیکھائی دیتے ہیں کہ حکومت تعلیم کو عام کرنے میں دن رات ایک کر رہی ہے، جبکہ ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی کلاس کا رزلٹ آتا ہے تو ہمارے میاں صاحب فعال ہو جاتے ہیں۔ چند طالب علموں کی حوصلہ افزائی کر دی جاتی ہے اور انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا جاتا ہے۔ یہ تو چند ایک مسائل ہیں ابھی تو بہت سے پایپ لائین میں پڑئے ہیں جن پر پھر کبھی بات کریں گے۔ عوام تو تین سال بعد اپنا فیصلہ سنا ہی دیں گے، اس مد میں حکومت کیا کرتی ہے دیکھنا یہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :