صحت کاانصاف برائے فروخت

منگل 28 جولائی 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

باباجی سنا ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت صوبے میں حقیقی تبدیلی لانے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کررہی ہے ۔۔؟باباجی نے ٹھنڈی آہ بھری اورگویاہوئے جوزوی بیٹے تاجروں کااورکام کیاہوتاہے ۔۔؟میں نے کہا باباجی میں سمجھا نہیں ۔باباجی نے روایتی بزرگوں اوربڑوں کالہجہ اپناتے ہوئے ڈانٹ اورغصے کے عالم میں کہا کہ بیٹے آپ سمجھیں گے بھی نہیں ۔

جس پارٹی۔۔ صوبے۔۔ شہر۔۔ گاؤں یاجس گھر میں جہانگیر ترین جیسے کاروباری افراد کاپڑاؤ ہوگا۔ وہاں نجکاری ۔۔بینکاری اورشجرکاری کے سواکوئی اورکام ہوہی نہیں سکتا ۔میں نے کہا باباجی سیاست،حکومت اورتجارت میں توفرق ہوتاہے ۔مانا کہ جہانگیرترین اورتحریک انصاف میں شامل دیگر کچھ لوگ کامیاب بزنس مین ہیں مگرخیبرپختونخوا حکومت توتجارت وکاروبار نہیں کہ اس کے ذریعے بھی سرمایہ کاری کی جائے ۔

(جاری ہے)

باباجی نے کہا کہ یہ توہم جیسے بھولے بھالے لوگ کہتے ،سمجھتے اورسوچتے ہیں کہ سیاست،حکومت اورکاروبار میں فرق ہوتا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ کاروباری ذہن کے حامل لوگوں کے ہاں آگ اورپانی میں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا ،ایسے لوگوں کواگر تھوڑا سانفع نظرآئے تویہ لوگ آگ اورپانی میں چھلانگ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ،یہ لوگ تھوڑے سے منافع کیلئے گھر بار کیااچھے بھلے انسانوں تک کوبیچ دیتے ہیں ،ایسے میں سیاست اورحکومت کی ان کے ہاں کیااہمیت۔

۔؟ایسے لوگوں کی نظر توہروقت منافع پرہوتی ہے ۔ضرورت کی کسی چیز میں بھی اگران کوتھورا سامنافع نظرآئے تویہ اس کوبھی لمحوں میں نیلام کردیتے ہیں ۔اس لئے ایسے لوگوں سے کبھی خیر کی توقع نہ رکھو۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت جس کی ڈور جہانگیر ترین جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان سے کسی خیر کی توقع نہیں ،ان کابس چلے تویہ صوبائی حکومت کی بھی نجکاری کرکے حکومتی نظام کسی کو ٹھیکے پردے دیں۔

بیٹے ان کوکاروبار اورمنافع سے زیادہ کسی چیز کی کوئی فکر نہیں۔ باباجی کی یہ تلخ باتیں سن کرمیں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ڈور ہلانے والے جہانگیرترین جیسے لوگوں کواگر واقعی عوام کی فکر ہوتی تووہ اس طرح کے اقدامات اٹھانے کی راہیں ہرگز ہموار نہ کرتے ۔خیبرپختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری سے غریب عوام کوپھر جس کرب اوراذیت سے گزرنا پڑے گا یہ سوچتے ہوئے بھی رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ،عوام کوفری طبی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرنے والے اب عوام پراضافی بوجھ ڈالنے اورصحت کی سہولیات مزید دور کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔

آخرسوچنے کی بات ہے جوغریب لوگ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرکے اپنی امیدوں کے بجھے دیئے جلاتے تھے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی صورت میں وہ علاج کیلئے بھاری اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔۔؟سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری سے ہزاروں اورلاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زندگیاں داؤ پرلگ جائیں گی پھر غریب روزانہ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کرزندگی کوالوداع کہیں گے۔

سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی حمایت کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد،لیڈی ریڈنگ پشاور اورحیات آبادمیڈیکل کمپلیکس جیسے دیگر بڑے سرکاری ہسپتالوں سے کروڑوں افراد کی زندگیاں وابستہ ہیں۔ بعض لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں پہلے مناسب سہولیات نہیں ملتی تھیں ان کی نجکاری سے عوام کوبہتر طبی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوگی مگرافسوس ۔

ان لوگوں کویہ اندازہ نہیں کہ ان ہسپتالوں کی نجکاری سے علاج معالجے پرآنے والے اخراجات پھر کس قدربڑھیں گے جس سے طبی سہولیات کی فراہمی نہیں دوری ممکن ہوگی۔ سرکاری ہسپتالوں میں خامیاں ضرو ہونگی ساتھ ان ہسپتالوں کی خوبیاں بھی کوئی کم نہیں۔ دس روپے کی پرچی پرچیک اپ ۔۔فری ایمرجنسی ٹریٹمنٹ اورپچاس روپے میں لامحدود دنوں کیلئے مریضوں کاان ہسپتالوں میں داخلہ کوئی عام اورچھوٹی سہولیات نہیں مگر ان ہسپتالوں کی نجکاری کی حمایت کرنے والوں کی آنکھیں ا س وقت الو کی طرح کھلیں گی جب دس روپے کاچیک اپ سو اوردوسوروپے پرہونے کیساتھ پھر ایمرجنسی ٹریٹمنٹ اوران ہسپتالوں میں مریض کے داخلے کی صورت میں مریضوں کے لواحقین سے بھاری اخراجات وصول کئے جائیں گے۔

پرائیویٹ ہسپتالوں میں اگرغریب عوام کیلئے علاج ممکن ہوتا توروزانہ ہزاروں اورلاکھوں لوگ سرکاری ہسپتالوں کارخ نہ کرتے۔ ہزارہ سمیت پورے صوبے میں پرائیویٹ ہسپتالوں کی کوئی کمی نہیں لیکن ان پرائیویٹ ہسپتالوں کے بھاری اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے لوگ سرکاری ہسپتالوں کارخ کرتے ہیں۔ اب اگران کوبھی پرائیویٹ یانیم پرائیویٹ کردیاگیا تو پھر لوگ گھروں میں ایڑھیاں رگڑنے پرمجبورہونگے ۔

چاہیے تویہ تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی بجائے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کوحکومتی دائرہ اختیار میں لاکرغریب عوام کوبہتر اورفری طبی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جاتی مگر بات وہی باباجی والی ہے پی ٹی آئی کے کرتادھرتا ؤں کوعوام سے زیادہ اپنے منافع کی فکر ہے جس کیلئے وہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے ساتھ صوبائی حکومت کی نجکاری یاکرایہ پردینے کی روایت ڈالنے سے بھی ہرگزدریغ نہیں کریں گے۔

ماناکہ مال ودولت کمانے کاشوق ہرکسی کوہے۔ہرشخص کی یہ خواہش ہے کہ اسے دس روپے کی جگہ پرسوروپے ملیں مگر صحت سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں ۔عمران خان اورپرویزخٹک خدارا عوام کی صحت کی قیمت لگاکراسے نیلام نہ کریں۔ مال کمانے اورمنافع بڑھانے کے اوربھی کئی طریقے ہیں اگرپی ٹی آئی حکومت کامقصد منافع بڑھاناہے توپھر سرکاری ہسپتالوں کی بجائے صوبائی حکومت کے ان وزراء اورمشیروں جن سے عوام کوایک روپے کابھی فائدہ نہیں ان کی نجکاری کریں ۔

وزیراعلیٰ ہاؤس اورگورنرہاؤس کوکرایہ پردیں یااسمبلی ہال کومخصوص ایام کیلئے شادی ہال بنائیں اورساتھ سرکاری گاڑیوں کورینٹ پردے دیں اس طرح منافع بھی بڑھے گا اورعوام کوتکلیف بھی نہیں ہوگی لیکن سرکاری ہسپتالوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے تبدیلی نہیں تباہی آئے گی جس میں پھر صوبائی حکومت بھی خاشاک کی طرح بہہ جائیگی ۔اس لئے خدارا عوام کوزندہ درگورنہ کریں ورنہ انجام پھر بہت براہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :