رابرٹو کی پریشانی

اتوار 26 جولائی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

محترم قارئین! اطالوی نژاد غیر ملکی سیاح ، رابرٹو کے سفر نامے سے چند مزید اقتباسات بزبانِ رابرٹو پیشِ خدمت ہیں۔
مجھے اسلامی جمہوریہ آئے چند روز ہی ہوئے تھے ، میں اپنے ایک مقامی دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد ہم گلی میں واک کر رہے تھے کہ وہاں سے ایک صاحب کا گذر ہُوا۔ میرے مقامی دوست نے اُن صاحب کو سلام کِیا اور نہایت موٴدبانہ انداز میں مِلے۔

میں نے اپنے پاکستانی دوست سے پوچھا ، یہ کون تھے۔اُس نے بتایا کہ یہ اُس کے محلے دار ہیں اور بڑے نیک انسان ہیں، میں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ میں نے پوچھا ، مگر آپ کو یہ کیسے پتا چلا کہ وہ ایک نیک انسان ہیں ، اور آپ کو انکی عزت کرنی چاہئیے۔ اُس نے جواب دیا، یہ صاحب پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، اورروزے بھی رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس لئے میں انکی عزت کرتا ہوں۔

یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ اگر کوئی شخص اپنی ذات کے لئے خُدا کی عبادت کرتا ہے تو اس وجہ سے دوسروں کو اسکی زیادہ تعظیم کیوں کرنی چاہیے۔یہ رویہ مجھے اِسلامی جمہوریہ میں ہر جگہ نظر آیا ۔ لوگ اپنی ذات کیلئے خُدا کی عبادت کرتے ہیں اور بدلے میں چاہتے ہیں کہ مُلک میں رہنے والے دیگر لوگ ان سے جھُک جھُک کر مِلیں اور سر آنکھوں پر بٹھائیں، انکی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے اور ہر جگہ ان کے ساتھ خصوصی برتاوٴ کِیا جائے۔

میرے لئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے مذہب کے مطابق ہر بالغ شخص پر نماز اور روزے فرض ہیں، پھر تمام لوگ یہ فرائض ادا کیوں نہیں کرتے، اور جو کرتے ہیں وہ خصوصی سلوک کے مستحق کیوں ہیں۔ میرے مقامی دوست نے بتایا کہ زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، یہ یہاں کا کلچر ہے کہ ” نیک “ لوگ ہر جگہ اپنی ” نیکی “ کو کیش کروانے اور دنیاوی فائدے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوئی اپنی کالی داڑھی اور تسبیح کو کیش کرواتا ہے تو کوئی سفید داڑھی کے لحاظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ خیر، واک کے بعد ہم واپس گھر پہنچے تو اس دوست کے بیٹوں میں کِسی بات پر تکرار ہوہی تھی ۔ دوست نے چھوٹے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ بڑے بھائی کا احترام کرو اور اُسکی بات مانو۔ یہ رویہ بھی میری سمجھ سے بالا تر تھا کہ اگر کوئی انسان چند سال پہلے دنیا میں آیا ہے تو اسکے بعد پیدا ہونے والے اس ” خوبی“ کی بناء پر زیادہ عمر والے کی تعظیم کیوں کریں۔


نیک لوگوں سے بھرے ہوئے اسلام کے قلعے کے باسیوں کا ایک اور رویہ میرے لئے کافی حیران کُن تھا۔ مُلک کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ خوفِ خُدا سے مالا مال غیرتمند مسلمان دُنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل و مصائب پر تڑپتے رہتے ہیں۔ پاک لوگوں کے اِس مُلک میں ہر شہری پارسائی کی دولت سے مالا مال ہے۔مُلک کے لاکھوں ” علماء“ اور اُنکے کروڑوں پیرو کار مغرب کی بے راہ روی اور خراب اخلاقی حالت پر کُڑھتے رہتے ہیں۔

میرے لئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ غیرتمند مسلمانوں کے اس مُلک میں خواتین کے لئیناکیلے گھر سے نکلنا محال ہے۔ اسکول، کالج، ہسپتال یا شاپنگ کے لئے جاتے ہوئے بہن، بہو ، بیٹی کو دیگر ” غیرتمند “ مسلمانوں کی گندی نظروں، بیہودہ آوازوں اور چھیڑ خانیوں سے بچانے کے لئے کِسی نہ کِسی مرد رشتہ دار کو ساتھ رہنا پڑتا ہے۔ میرے وطن اٹلی میں کِسی کو پارسائی کا دعویٰ نہیں ہے اسکے باوجود مُلک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خواتین بغیر کِسی خوف و خطر کے اکیلے سفر کرتی ہیں اور یہی صورتحال دیگر کافر مغربی ممالک میں بھی ہے۔


اِس مُلک کی ایک اور روایت نے مجھے کافی حیران کِیا۔ دنیا بھر میں اکثر انسانوں کو اپنا نام پسند ہوتا ہے اور وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ اُنکو، انکے ناموں سے پُکارا جائے ۔ اسلام کے قلعے میں مجھے صورتحال مختلف نظر آئی، یہاں شاید لوگوں کو اپنے نام کُچھ خاص پسند نہیں ہیں، یہاں لوگوں کو انکے ناموں سے پُکارنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

یہاں آپ بڑے بھائی یا بہن کو انکے نام سے نہیں پُکار سکتے، آپ دیگر رشتہ داروں کو انکے ناموں سے نہیں پُکار سکتے، اپنے سے ایک دو سال بڑے اسکول، کالج یا دفتر کے ساتھی کو اُنکے ناموں سے نہیں پُکار سکتے ، اپنے سے بڑا عہدہ رکھنے والے کو اُنکے ناموں سے نہیں پُکار سکتے۔ یہ معمہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔میں نے کئی عرب ممالک کے سفر بھی کئے ہیں ، اکثر عرب ممالک میں بغیر سر، جناب، صاحب کے سابقے اور لاحقے لگائے لوگوں کو انکے اوّل نام سے پُکارا جاتا ہے۔
انسانوں کا اتنا مصنوعی احترام مُجھے دُنیا کے کِسی اور خِطّے میں نظر نہیں آیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :