بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں

جمعہ 24 جولائی 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

بلوچستان اور کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے بعد ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈ میں 17 سال بعد الیکشن کا کامیاب انعقاد ہو چکا ہے اسلام آباد سندھ اور پنجاب کے لیے منصوبہ بندی جاری ہے اسلام آباد کے لیے قانون سازی مکمل ہو چکی ہے الیکشن کمیشن سندھ اور پنجاب کے لئے تاریخیں دے چکا ہے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے سمیت چیئرمین وائس چیئرمین کونسلرز کی تفصیلات آرڈیننس کے ذریعے آ چکی ہیں۔

پنجاب میں نئی حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کیا جہانگیر ترین کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کئی گئی درخواست پر فیصلہ بھی آ چکا ہے پنجاب میں30 ہزار سے زائد اعتراضات داخل ہوئے جنہیں الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار نمٹاا دیا ہے اس کے باوجود الیکشن کے حوالے سے شکوک ہیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے آخر کیوں کے پی کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے جو تحفظات تمام پارٹیوں کو درپیش رہے انہی کا سامنا پنجاب میں دیکھنے کو مل رہا ہے حالانکہ کے پی کے میں متعارف کر ایا جانے والا بلدیاتی نظام بالکل نیا ہے اور پنجاب میں متعارف کر ایا جانے والا بلدیاتی نظام جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام سے ملتا جلتا ہے کے پی کے بلدیاتی نظام میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر دیئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ پنجاب میں بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں دیئے جا رہے۔ کے پی کے میں بھی تحریک انصاف پر الزام لگا اس نے حلقہ بندیاں اپنی پسند کے مطابق کی ہیں اور وہی الزام پنجاب میں بھی لگ رہا ہے اگر جائزہ لیا جائے حقائق بتاتے ہیں پنجاب میں فول پروف انداز میں حلقہ بندیاں کر کے الیکشن جیتنے کے سو فیصد امکان کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
مثلاً امیدواروں سے درخواستیں مانگنے سے پہلے طے کر لیا گیا ہے (ن)لیگ ان حلقوں میں حتمی امیدوار نامزد کرے گی جہاں انہیں سو فیصد یقین ہو گا اگر وہ نشست جیت لیں گے جہاں یقین نہیں ہے وہاں پورے حلقے کو اوپن رکھا جاےء گا اس کے ساتھ یہ بھی طے ہوا ہے جہاں آزاد امیدوار مضبوط ہو گا اس حلقے کو بھی اوپن رکھا جائے گا تاکہ جیتنے کے بعد امیدوار کو (ن) لیگ میں شامل کیا جا سکے۔

اسلام آباد پنجاب سندھ میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے ساتھ ہی پنجاب اور سندھ میں مرحلہ وار الیکشن کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے پندرہ پندرہ دن کے بعد الیکشن ہوں گے پنجاب میں تین مرحلوں میں الیکشن ہوں گے لاہور کو پہلے مرحلے میں رکھا گیا ہے پنجاب حکومت نے یونین کونسل کا نیا نظام متعارف کرتے ہوئے امیدواران کو قومی اور صوبائی ترقیاتی بورڈ کا ممبر بھی نامزدکیا ہے اور ایم این اے حضرات کو کم از کم دو کروڑ اور ایم پی اے حضرات کو ایک کروڑ روپے کے ترقیاتی کام مکمل کرنے کا ٹاسک دیا ہے اپوزیشن جماعتیں بلدیاتی الیکشن کے اعلان کے بعد حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ منظور کرنے پر شور مچا رہی ہیں اور اسے پری پول رگنگ قرار دے رہی ہیں اور ساتھ الیکشن کمیشن کو درخواست کر رہی ہیں ان کا موقف ہے جو امیدوار 3 کروڑ روپے حلقے پر خرچ کرے گا عوام کا رجحان فطری طور یہ اسی کی طرف ہو گا اور وہ آسانی سے الیکشن جیت جائے گا یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہو گا اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات پر الیکشن کمیشن ابھی تک خاموش ہے پنجاب میں بلدیاتی نظام جو متعارف کرانے کا حتمی فیصلہ ہوا ہے اس میں لارڈ میئر ڈپٹی میئر ٹاؤن ناظم نائب ناظم اور یوسی میں چیئرمین وائس چیئرمین کا نام تجویز کیا گیا ہے یونین کونسل میں چیئرمین وائس چیئرمین اور چھ کونسلرز کا انتخاب براہ راست کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کی طرح یونین کونسل میں ممبران کی تعداد 12 یا 13 رکھی گئی ہے۔


یونین کونسل کو 6 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے ہر وارڈ سے ایک کونسلر ہو گا اس طرح6 کونسلر اور چیئرمین، وائس چیئرمین براہ راست منتخب ہوں گے۔ اور چھ کونسلر دو خواتین کونسلر ایک اقلیتی کونسلر اور ایک لیبر اورکسان کونسلر کو منتخب کریں گے۔
اسی طرح یونین کونسل کا نظام ٹاؤن چیئرمین وائس چیئرمین کہلائے گا اور ناظم ٹاؤن کا انتخاب بھی براہ راست کروانے کی تجویز زیر غور ہے 13 رکنی یونین کونسل کی ٹیم کو اختیارات کیا کیا دیئے جائیں اس حوالے سے ابھی فائنل نہیں ہو پا رہا۔


بلدیاتی نظام کی اصل روح نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی ہے اور ان کو با اختیار بنانا ہے اس روح کے مطابق کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ منصوبہ بندی شروع سے آخر تک جو نظر آ رہی ہے وہ الیکشن جیتنے کی ہے نہ کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنانے کی کے پی کے میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات آنا باقی ہے کنٹونمنٹ بورڈ میں الیکشن نے (ن) لیگ کو بڑا حوصلہ دیا ہے بلدیاتی الیکشن سے سب سے زیادہ خوف زدہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نظر آ رہی تھی۔


پیپلز پارٹی کی حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی اب الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
سپریم کورٹ کے واضح اور دو ٹوک احکامات کے بعد بلدیاتی الیکشن بلوچستان اور کے پی کے میں منعقد ہو چکے ہیں کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی الیکشن کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ اب سندھ اور پنجاب اور اسلام آباد کا مشکل مرحلہ سرپر آ رہا ہے۔ سب سے پہلے اسلام آباد کا مرحلہ ہے پھر20 ستمبر کو پنجاب میں پہلا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔

پنجاب میں 20 ستمبر کو الیکشن اس لیے ہوتا نظر نہیں آتا 22 ستمبر کو حج اور 23 ستمبر کو بڑی عید آ رہی ہے۔
حج پر بھی دو لاکھ افراد ملک سے باہر ہوتے ہیں 20 اکتوبر تک حاجیوں کی واپسی کا مرحلہ مکمل ہونا ہے اس لیے کہا جا رہا ہے پنجاب کے الیکشن 20 اکتوبر کے بعد شروع ہوں گے اور 31 دسمبر تک مکمل ہوں گے۔31جولائی سے پہلے بلدیاتی شیڈول دینے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔

بظاہر قابل عمل نظر نہیں آتا۔
میرے ذاتی رائے یہ ہے بلدیاتی نظام کی اصل روح کو سامنے رکھتے ہوئے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یہ کوئی کمپیوٹر فائز نہیں کرنا چاہئے۔ اور ایمانداری کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چائیے چھوٹے چھوٹے مسائل وہ صفائی کے ہوں یا گلی محلے کے وہ تھانے کے ہوں یا چوکی ان کو یونین کونسل کی سطح پر حل ہونا چائیے۔


حکومت کی بھی پہلی ترجیح الیکشن جیتنا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ شفاف انداز میں حلقہ بندیاں اور میرٹ پر وارڈ کی تقسیم کو یقینی بنانا چاہئے۔
الیکشن کمیشن کو سخت مانیٹرنگ میں تمام مراحل کی تکمیل اپنی نگرانی میں کروانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری سیاسی جماعتوں کی عمل داری سیاسی جماعتوں کی مداخلت کا نوٹس الیکشن کمیشن کو لینا چاہیے اس کے لیے عام افراد کی طرف سے داخل کرائے گئے اعتراضات کو بھی سنجیدگی سے سننا چاہیے اور بلدیاتی الیکشن بلوچستان کے پی کے اور کنٹونمنٹ بورڈ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا اسلام آباد پنجاب اور سندھ میں ازالہ کرنا چاہیے تاکہ کسی قسم کی تنقید باقی نہ رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :