سمندر کی لہروں پر

بدھ 22 جولائی 2015

Ammar Mushtaq Khan

عمار مشتاق خان

تھا ئی لینڈ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا اکیسواں بڑا ملک ہے جبکہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 51نمبر کابڑا ملک ہے، کئی سال پہلے یہاں غربت کا راج تھا پھر انہوں نے سیاحت اور امن کو فروغ دیا اور دنیا نے اِن کی جانب دوڑ لگا دی۔ ہر سال ساٹھ لاکھ سے زائد سیاح اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ملک ایک جانب سلگتے ہوئے برما اور مفلس لاؤس سے ملتا ہے جبکہ اسکے سرحد مشرق میں منشیات فروش کمبوڈیا سے ملتی ہے اسکی سرحد ملائیشیاء سے ملتی ہے اور اسکی وسیع سرحدکو سمندر نے بھی گھیرا ہوا ہے جبکہ ا ِس سمندر میں سینکڑوں جزیرے ہیں جو اس ملک کی ملکیت ہے۔

انہی جزیروں کے قرب و جوار میں مچھیروں کا ایک گاؤں ہے جس کا نام ’کو ہ پن یی‘ ہے ۔ اس گاؤں کی بنیاد اٹھارویں صدی میں رکھی گئی جب انڈونیشیا سے کئی چھوٹی کشتیوں پر تین خاندانوں نے روزگار کے لیے ہجرت کی، ان نے عہد کیا کہ جوں ہی کسی کشتی کو کوئی مناسب جگہ میسر ہو جائیگی وہ اس علاقے میں موجود سب سے اونچی جگہ پر چڑھ کر ایک جھنڈا نصب کرئے گا تاکہ باقی کشتوں کو بھی وہ جگہ معلوم ہو جائے اور وہ پھر اُس رخُ میں آگے بڑھیں گی۔

(جاری ہے)

یہ جاوا سے نکلے اور سماٹرا آگئے، پھر انڈمان سمند ر میں اتر گئے، آگے بڑھتے بڑھتے یہ کشتیاں ملائیشیا جا نکلیں اور پھر طویل مسافت کے بعد کے تھائی لینڈ کے پانیوں میں اتریں ۔ ایک مچھرے ’تو باہو‘ کو ایک جزیرہ نظر آیا، وہ اور اُسکے ساتھی اِسکا جائزہ لینے کے لیے اِسکے قریب آئے، تفصیلی معائنہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ جگہ محفوظ بھی ہے اور مچھلیاں بھی وافر مقدار میں دستیاب ہیں ، پھر حسب وعدہ ان میں سے ایک نے، بلند جگہ پر جھنڈا نصب کر دیا ، آہستہ آہستہ ساری کشتیاں وہاں پہنچ گئیں اور اس جزیرے کا نام ’کو ہ پن یی ‘ پڑ گیا، تھائی زبان کے الفاظ کے معنی’ بلند جھنڈا‘ کے ہیں۔

ان تین خاندانوں کی نسلیں صدیوں کا سفر کر کے آج اکیسویں صدی میں جی رہی ہیں اور آج کل اس گاؤں کی آبادی دوہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ یہ دنیا کا واحد کا گاؤں تھا جس کے پاس ایک انچ بھی زمیں نہیں تھی یہ لوگ کبھی کبھار ہی زمیں پر اترتے تھے۔ لیکن آج کل ان لوگوں نے باہمی تعاوں سے جزیرے پر ایک مسجد اور سکول بنا لیا ہے لیکن اب بھی یہ لوگ کشتوں میں رہتے ہیں، ان کا جینا مرنا یہی کشتیاں ہیں، ان کے مشاغل میں کشتی رانی اور شکار کرنا شامل ہے جبکہ تیراکی کی بات کی جائے تو مچھلیوں کے مانند تیرتے ہیں ، یہی وجہ ہے دنیا آج بھی اس گاؤں کو تیرتا ہوا گاؤں کہتی ہے اور لاکھوں لوگ ہر سال اس گاؤں کی جھلک دیکھنے کے لیے تھائی لینڈ جاتے ہیں ۔

1986 میں میکسیکو میں فٹبال ورلڈ کپ ہو رہا تھا۔ اس گاؤں کے بچوں نے کسی طرح ٹی وی اور بیٹریاں منگوائیں او ر پورا گاؤں والے ساتھ مل بیٹھ کر فٹبال دیکھتے۔ انہوں بچوں میں سے ایک نے کہا ہم بھی فٹبال کھیلیں گے، ہماری ٹیم ہو گی اور ہم چمپئین بنیں گے۔ تب گاؤں کے بزرگوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ ذرا اپنے اِردگرد دیکھو ۔۔۔ وہ زمین کہاں کے جہاں تم فٹبال کھیلو گے۔

۔۔ پاگل کیا سمندر کی لہروں پر فٹبال کھیلو گے۔۔۔۔ اور پورا گاؤں اس لڑکے کی ’کم عقلی‘ پر ہنسنے لگا۔ اس نے زور سے چلا چلا کر کہا ہاں میں سمندر کی لہروں پر فٹبال کھیلوں گا۔ ٹیم بناؤں گا اور چمپئین بنوں جبکہ ننھے ننھے بچوں نے اسکی پیروی میں کہا ’ ہاں ہم بھی سمندر کی لہروں پر فٹبال کھلیں گی‘۔ اس کے بعد کئی دن تک یہ بچے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور کچھ پلاننگ کرتے رہتے۔

ایک دن وہ سب اپنی اپنی کشیوں پرنکل گئے جب واپس پلٹتے تو اِنکی کشیوں میں لکڑی کے تختے ، ناریل کے بال،اور ناریل کے درخت کے تنے ہوتے۔ وہ روز جاتے اور اس طرز کا سامان جمع کر کر کے لے آتے اور گاؤں کے بڑے بوڑھے ہنستے ہوئے کہتے ’ذرا اپنے اردگرد دیکھو۔۔۔ تم لوگ سمندر کی لہروں پر فٹبال کھیلو گے؟‘ ۔ پھرایک دن انہوں نے اُنہی باپ دادا سے کشتی سازی کے سیکھے ہوئے گرُ آزمانے کا فیصلہ کیا انہوں نے سمندر کی سطح پر تختے جوڑنے شروع کئے۔

تختے جوڑتے جاتے اور ایک پلیٹ فارم بنتا چلا گیا۔ انہوں نے کیلیں ٹوٹی ہوئی کرسیوں ، لکڑیوں کے پرانے تختوں اور ٹوٹی ہوئی کشتیوں سے نکال لائیں۔ ناریل کے بالوں اور پتوں سے رسیاں بنائیں یوں ایک گراؤنڈ نے سمندر کی لہروں پر پرورش پانا شروع کیا۔ لوگ آتے جاتے دیکھتے اور انکی نادانی پر کفِ افسوس ملتے۔ لیکن وقت اور محنت آپس میں ضرب ہوتے چلے گئے۔

یہاں تک کہ تھائی لینڈ کے سمندر پر ایک تیرتے تختے نے جنم لینا شروع کیا۔ یہ تختہ ان بچوں کا فٹبال گراؤنڈ تھا۔ان میں جابجا کیلیں نکلی ہوئی تھیں ، جگہ جگہ سوراخ تھے اور اس تختے کے چاروں طرف پانی تھا۔لوگ ہنستے اوراُنکے تیرتے گراؤنڈ کی جانب اشارے کر کے کہتے کہ تم لوگ اس ’چیز‘ پر کھیل کر چمپئین بنو گے۔۔ لیکن وہ بچے اس تختے پر فٹبال کھیلتے اور جب بھی کوئی کشتی انکے قریب سے گزرتی تو وہ کہتے یہ ہمارا گراؤنڈ ہے اور ہم نے فاتح بننا ہے ۔

پہلے جو لوگ ان پر ہنستے تھے اب وہ صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتے۔ سختیوں اور محدود وسائل نے انہیں مضبوط بنانا شروع کر دیا۔اُبھری کیلوں اور ناہموار تختوں نے انکے پاؤں مضبوط کئے اور چاروں طرف پھیلے پانی نے انہیں فٹبال کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پر مجبور کیا کہ وہ باربار پانی میں چھلانگیں لگانے سے دُور رہیں۔ پھر ایک دن اعلان ہوا کہ تھائی لینڈ میں علاقائی فٹبال چمپئین شپ ہو رہی ہے۔

وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگ گئے کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ اس مقابلے میں جائیں پھر ان میں سے کسی ایک نے کہا کہ وہ لازمی جائیں گے۔ ان کے پاس کٹس اور جوتے نہیں تھے لیکن پھر ایک مخیر بزرگ نے یہ کمی بھی پوری کر دی اور وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر کئی مشکوک اور تنقیدی نظروں کو پیچھے چھوڑ کر مقابلے کے لیے نکل پڑے۔ جلد ہی گاؤں یہ خبر پہنچی کہ انکے بچے جیتے ہی جا رہے ہیں گاؤں کے باسیوں نے کشیاں لین اور کھیل کر میدان کی طرف کوچ کر گئے۔

سیمی فائنل میں پہنچ کر اُنکے مدمقابل علاقے کی بہتریں ٹیم تھی ، بارش شروع ہو گئی۔ انکے جوتوں میں پانی بھر گیا۔ انہیں تو ننگے پاؤں کھیلنے کی عادت تھی لہذا انکی ٹیم دو گول کے خسارے میں چلی گئی۔ ریفری سے بات کی گئی کہ جوتے اتار کر کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ بس اس امر کی دیر تھی کہ کچھ ہی لمحوں میں حساب برابر ہو گیا۔ کل تک گاؤں کے لوگ جو اِن پر ہنستے تھے آج تالیاں بجا بجا کر پاگل ہوئے جارہے تھے۔

انہوں نے سیمی فائیل بھی جیت لیا۔ ان فائنل کا میدان سجنا تھا اور دونوں ہی مضبوط ٹیمیں حاضر تھیں، مقابل ٹیم پروفیشنل ٹیم تھی اُسکے پاس کوچ تھے، مکمل ساز و ساماں تھا، اُن کی پریکٹس اچھی تھی اور اس ٹیم کے پاس صرف و صرف حوصلہ تھا، محنت کرنے کی جستجو تھی اور جیتنے کا عزم تھا لیکن سخت مقابلے کے بعد یہ ٹیم میچ ہار گئی اور ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

یہاں سے پھر ایک نئی کہانی نے جنم لیا۔ یہ لوگ گاؤں واپس آئے تو ان کا استقبال کیا گیا۔ اُنکی مدد کا عہد کیا اور گاؤں کے باسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اُنکی مدد کرنا شروع کی۔ پھر آنے والے وقت میں یہ ٹیم چمپئین بن گئی اس نے کل آٹھ چمپئین شپ جیتیں اور تھائی لینڈ کی سب سے کامیاب اور مشہور ٹیم بن گئی۔ ہر اُس انسان جس نے کسی بھی فیلڈ میں پہلاقدم آگے بڑھایا تھا اُسے یہی کہا گیا تھا کہ ’ذرا اپنے اردگرد دیکھو کیا تم سمندر ہی لہروں پر فٹبال کھیلو گے۔


جنھوں نے اُن لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنی جدوجہد جاری رکھی وہ تاریخ کی کتاب میں اپنی داستان اَن مٹ سیاہی سے لکھ کر آگے بڑھ گئے اور دوسرے پر ہنسنے والے، راستوں میں روکاوٹیں ڈالنے والے اور لوگوں کی ہمت کے بند توڑنے والے اربوں لوگ اس دنیا میں آئے اور چلے گئے لیکن اُنکی قبروں کے کتبوں کے علاوہ شاید ہی اُنکا نام کہیں لکھا ہو، شاید ہی انہیں کسی نے یاد رکھا ہو۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ سمندر کی لہروں پر فٹبال کھیلنے کی کوشش کریں گے یا کنارے پر کھڑے ہوکر مسخروں کی مانند ہنستے رہیں گے ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :