رابرٹو کی حیرانی

ہفتہ 18 جولائی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

محترم قارئین! اطالوی نژاد غیر ملکی سیاح ، رابرٹو کے سفر نامے سے چند مزید اقتباسات بزبانِ رابرٹو پیشِ خدمت ہیں۔
مجھے اسلامی جمہوریہ میں آئے ہوئے کئی روزہو چُکے تھے ، حیرتوں کا ایک جہاں تھا جو میرے سامنے تھا۔یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ مُلک کا نام تو اسلامی جمہوریہ ہے اور اس مُلک کا قیام بھی ووٹ کی طاقت سے آیا تھا ، مگر اس مُلک کے لنڈے کے سارے
دانشو ر، چندے والے سارے علماء اور مندے والے سارے سیاستدان جمہوریت کے خلاف کیوں ہیں۔

یہ مُلک چونکہ اسلامی ہے لِہٰذا میں نے جان کی امان پاتے ہوئے یہ سوال چند مذہبی عالموں سے پوچھا کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بندوق کے زور پر حکومت اور دارالحکومت پر قبضہ کر لے تو کیا اسلام کی رُو سے یہ جائز ہے، یا حکومت کا تقرر کرنے کے لئے جمہور کی رائے لینا ہوگی ؟ اِس سوال کا واضح جواب دینے کے بجائے علماء حضرات روہنگیا مسلمانوں پر برما کے فوجی ڈکٹیٹروں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے چندے کی اپیلیں شروع کر دیتے تھے ۔

(جاری ہے)

رابرٹو مزید لکھتا ہے کہ ، میں نے جب اِس مُلک کی تاریخ پر نظر ڈالی تو عبرتناک حقائق سامنے آئے۔
مُلک کے قیام کے چند برس بعد ہی ہراول دستے کو مُلک کے قیام کی جدوجہد میں حِصّہ لینے والے رہنماوٴں میں کیڑے نظر آنے شروع ہوگئے تھے اور اُنکی حب الوطنی پر شبہ ہوگیا تھا۔جلد ہی ایشیاء کے چارلس ڈیگال نے اقتدار پر قبضہ کر لِیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب خِطّے کے طول و عرض میں اِن سیاستدانوں کی رہنمائی میں مُلک کے قیام کی جدوجہد جاری تھی تو اِ س تمام عرصے کے دوران جناب چارلس ڈیگال، سرکارِ انگلشیہ سے حلف وفاداری نبھاتے ہوئے برما کے محاذ پر دادِ شجاعت دے رہے تھے یا انگریز فوجیوں کے ساتھ گالف کھیل رہے تھے۔

چارلس ڈیگال نے بیشتر سیاستدانوں بشمول مُلک کے قیام کی جدوجہد میں حِصّہ لینے والے رہنماوٴں کو نا اہل قرار دے دِیا۔ مادرِ ملت کے خلاف سازشوں کے جال بچھائے۔ جھرلو کے ذریعے مادرِ ملت کو الیکشن میں ہرایا ۔ مُلک کے سب سے بڑے شہر میں جشنِ ” فتح “ مناتے ہوئے عوام کے خُون سے ہولی کھیلی اورخُون آلود نسلی اور لِسانی تعصب کی ایسی فصل بوئی جو آج بھی زہریلے پھل دے رہی ہے۔


فیلڈ مارشل چارلس ڈیگال مُلک کے مشرقی حِصّے میں علیحدگی کے بیج بو چُکے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ مملکتِ خدادا کو چلانا ” بلڈی سولین “ سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں، لِہٰذا آپ نے حکومت چھوڑتے ہوئے اقتدار اپنے ایک ہونہار کامریڈ ، جنرل رانی کے سپرد کر دِیا۔ جنرل رانی کی شباب اور شراب سے بھرپور عیاشیوں کی قیمت اِس قوم نے پوُرا مشرقی صوبہ دے کر چُکائی۔

آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی اِس قوم کے مصائب کم نہیں ہوئے ۔
ْ # # ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
میں اک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
اب قوم کو مردِ مومن جپھا ڈال چُکا تھا۔ مردِ مومن کے حساس نظریات اور خیالات نے اسلامی جمہوریہ میں فرقہ واریت کی ایسی آگ بھڑکائی جو مسلسل اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ ملک کے شمالی پہاڑوں سے جنوبی سمندروں تک ، لہلہاتے میدانوں سے ریگزاروں تک فرقہ پرستوں کے لشکر دندناتے پھر تے رہے۔

لیکن اِس سے بھی مردِ مومن کا دِل نہیں بھرا، آپ نے مُلک کے سب سے بڑے شہر میں چند سیاسی جماعتوں کا اثر و نفوذ کم کرنے کے لئے ایسے عفریت کو جنم دِلوایا جِس نے مستقبل کے ہانگ کانگ اور سنگاپور کو لاشوں اور بھتوں سے چُور چُور موگا دیشو بنا کر رکھ دِیا۔ مردِ مومن نے بڑی مہارت سے اِس قوم کو نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر کا چورن بیچا اور آبادی کے بوجھ تلے دبے ہوئے مُلک کو پچاس لاکھ پناہ گزینوں کا تحفہ دِیا۔

اِن مہمات کے دوران مردِ مومن کو خبر ہی نہ ہوئی اور برف پوش وادیوں سے ڈھکا ملک کا خوبصورت حِصّہ دشمن ملک کے قبضے میں چلا گیا، تاہم مردِ مومن کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور آپ نے فرمایا کہ ” اس خطے میں تو گھاس بھی نہیں اُگتی“۔ مردِ مومن نے قوم کودوبارہ مسلمان بنانے کی بھرپور سعی کی۔
# اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
نتیجہ یہ رہا کہ معاشرہ مغالطو ں اور مفروضوں کا ملغوبہ بن کر رہ گیا۔


پاک صاف لوگوں کے وطن کو ابھی ایک اور عجوبہ دیکھنا تھا ۔کُتوں کو بغلوں میں دبائے اس قوم پر جعلی کمال اتا ترک مسلط ہوگیا۔ اِس جعلی کمال اتا ترک کے” جدیدروشن “ دور کی بدولت مُلک کے طول و عرض میں بموں کی بارش شروع ہوگئی۔ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو اسلامی جمہوریہ میں اعلانیہ کارروائیوں کی اجازت دی گئی، مُلک کے فضائی اڈے کرائے پر اُٹھا دیئے گئے اور گرفتار ملزمان کو دوسرے ممالک کو بیچا جانے لگا۔

اِس دوران جعلی کمانڈو طبلوں سے دِل بہلاتا رہا اور مُلک کے تمام قبائلی علاقوں پر مُلک دشمن دہشت گردوں کا قبضہ ہوگیا۔اِ س جعلی کمال اتاترک کے کمالات کی پاداش میں اسلام کے قلعے کو پچاس ہزار سے زائد شہریوں کی شہادت اور لاکھوں دیگر شہریوں کے زخموں کا سامنا کر نا پڑا۔ یہ سلسہ ہنوز جاری ہے۔
رابرٹو مزید لکھتا ہے کہ اِن نادرِ روزگار ہستیوں کے ادوار کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ ان کے اقتدار کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ نہ صرف لاکھوں شہریوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ مُلک اپنے بہت سے حِصّوں سے محروم ہوگیا۔

ایشیائی چارلس ڈیگال اور جنرل رانی کے ادوار میں دو جنگوں میں مُلک کے مغربی حِصّے میں کئی علاقوں پر دشمن مُلک کا قبضہ ہوگیا اور پورے کا پورا مشرقی حِصّہ ہاتھ سے نَکل گیا۔ مردِ مومن کے دور میں شمالی برفانی چوٹیوں پر دشمن مُلک کا قبضہ ہوگیا۔ جعلی کمال اتا ترک کے دور میں تمام قبائلی علاقوں پر ظالمان دہشت گردوں کا قبضہ ہوگیا، جو ابھی تک پُوری طرح سے چھڑا یا نہیں جا سکا۔
لاکھوں جانیں اور لاکھوں مربع کلومیٹر رقبہ کھونے کے بعد بھی اگر اسلامی جمہوریہ میں اُسی عطّار کے لڑکے سے علاج کروانے کے خواہش مند موجود ہیں تو اِس مُلک کے دشمنوں کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :