انتقام کی بھٹی

جمعرات 16 جولائی 2015

Ammar Mushtaq Khan

عمار مشتاق خان

میں آجکل بحرین میں ہوں،یہ ملک رقبے کے لحاظ سے ہمارے شہر مانسہرہ سے بھی چھوٹا ہے، 1950 ء میں بحرینیوں کی اکثریت صرف و صرف سمندر سے موتی نکال نکال کر بیچتی تھی، جبکہ کچھ بحرینی تجارت سے منسلک تھے پھر اس ملک میں ایسا کیا ہوا کہ یہ طاقتور معاشی قوت بن گیا یہ میں آپ کو پھر کبھی بتاؤں گا ۔ فی الحال میرے آج کے کالم کا موضوع پنجاب کا ایک عام سا نوجوان ہے جو ایک سفید پوش گھر سے تعلق رکھتا تھا لیکن آج ارب پتی ہے ۔

بحریں میں اُنکا شمار کامیاب تریں پاکستانی بزنس مینوں میں ہوتا ہے ، میں نے اُن سے پوچھا کامیاب زندگی کاکیا راز ہے؟ انہوں نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولے عقلمندانہ رسک لو، انتقام سے بچو اور خدا سے تجارت کرو۔میں انہوں احمقوں کی مانند تکنے لگااور صرف اتناہی کہہ سکا کہ ۔

(جاری ہے)

۔کیا صرف یہی کافی ہے ؟ وہ بولے اگر تم یہ بھی کر لو تو سمجھ لو تم کامیابی کی انتہا پر جا پہنچو گے۔

انہوں نے کہا اس کے لیے تمھیں میرے ماضی میں پندرہ برس پیچھے جھانکنا ہوگا۔ آج سے پندرہ برس قبل میں جس کمپنی کے لیے کام کر رہا تھا اس کے مالک کے بیٹے سے میری کاروباری معاملات پر کھٹ پٹ ہو گئی اور اگلی صبح میں نے اپنے آپ کو بے روزگا ر لوگوں کی فہرست میں پایا۔ انہوں نے آدھی رات کو ایک ای میل بھیجی کہ "You are fired" اور میرا کیرئیر ختم ہو گیا۔


مجھے کمپنی سے نکال دیاتھا میں انتقام اور غصے کی آگ میں لپٹا ہوا تھا۔ میری زبان سے گالیوں کاجہنمی لاوا بہہ رہا تھا اور نفرت کا بحرمجھ میں موجزن تھا۔ میرا دل چاہا رہا تھا کہ میں اس کمپنی کو آگ لگا دوں جس کا میں کبھی منیجر ہوا کرتا تھا ۔ میں نے اُن کے لیے دن رات ایک کیا تھا۔ اُنکے لیے گاہک ڈھونڈتے ڈھونڈتے میری کتنی ہی چھٹیاں غائب ہو گئیں پھر انہوں نے کسی کی باتوں میں آکر مجھے لمحے بھر میں فارغ کر دیا۔

میرے پاس وسائل کی کمی نہ تھی، میں نے اپنی محنت کے بل بوتے پر اچھا خاصا سرمایہ جمع کر لیا تھا۔ لیکن فقط کام کرنے کہ جنون اور تعریف کے چند بول کی بھوک نے مجھے نوکری کرنے پر مائل کر رکھا ہوا تھا ۔ میرا دماغ ابل رہا تھا اور میرے من میں انتقام کی بھٹی جل رہی تھی۔ میں نے اُسی شام اپنے پاپا کو فون کیا اور اُن سے ایک بڑی رقم کا تقاضہ کر ڈالا ، میرا ایک ہی مقصد تھا کہ میں ہر وہ ترکیب تیار کروں گا جس سے اِس کمپنی کو نقصان ہو گا،میں اُن کے خلا ف عدالت میں جاؤں گا، اُنکی شکایات ہر اُس محکمے میں کر وں گا ،جس کا اُنکے کاروبار سے کسی نہ کسی صورت میں واسطہ رہتاہے۔

میرا ایک ہی مقصد تھا کہ میں انہیں تباہ و برباد کر ڈالوں۔ لیکن اِس سے پہلے میں یہ کرتا میں نے اپنے بہتریں دوست کو اپنے ساتھ ملانے کی سوچی۔ میں اُس کے پاس گیا اور اُسے ساری کہانی سنا ڈالی ۔ وہ اتنہائی سکون سے میری ساری گفتگو سنتا رہا اور صرف اتنا بولا۔۔۔۔ اچھا تو اِس سے کیا فائدہ ہو گا ؟ ۔۔۔ مجھے اُس سے اِس جواب کی امید نہ تھی، مجھے لگتا تھا کہ وہ میری مدد کرے گا، میری داستان سن کر مجھے نئے پلان بتلائے گا۔

لیکن اس نے مجھ سے سوال کر کے میرے جذبات کو مزید مجروح کر دیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ اِس سے وہ کمپنی تباہ و برباد ہو جائے گی۔۔ یہ سن کر اُس کہ منہ سے ایک زوردار قہقہہ اُبلا اور وہ اپنا پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگا۔ مجھ سے پھر پوچھنے لگا ۔ اچھا تو اِس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ ۔۔۔ میں کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ِاس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔

اِس پورے معاملے کو میں نے ہر طریقے سے جمع تفریق و ضرب کر کے دیکھ لیا لیکن مجھے فائدے کا عنصر کہیں نظر نہیں آیا ۔ میں نے اپنی ہر سوچ کو جب بھی حقیقت کے پیمانے پرپرکھا تو مجھے اُس میں کوئی فائدہ نہیں نظر آیا۔ میں نے بے بسی سے اپنے دوست کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا دیا اور بولا کیوں کوئی فائدہ ہے اِن سب کاموں کے کرنے کا۔ میں نے ہار ماننے کی بجائے اُس سے ہی پوچھ لیا اچھا اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔

انہوں نے مجھے ذلیل کیا، مجھے نوکری سے نکال دیا، میری تذلیل کی گئی، مجھے کچھ تو کرنا ہی چاہے نا؟۔ میرے دوست نے کہا اچھا پھر تو تم بدلا لو۔ اُس کے اِس جواب نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی کہ میں کیسے بدلہ لوں ہر جس عمل سے میں بدلہ لے سکتا ہوں تم نے مجھے اُس سے روک دیا ہے۔ اب کیا میں انہیں جا کر گولیا ں مار دوں ؟۔ میں چیختے ہوئے بولا۔
وہ ہنستے ہنستے سنجیدہ ہو گیا اور بولا کہ تم لاکھوں دینار لگا کر اُنکا کاروبار بند کروانا چاہا رہے ہو۔

لیکن تم اگر اُن کے کاروبار کو تباہ کرنے کا سوچو گے تو تم صرف ایک نہیں بلکہ اُن کے کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگوں کا روزگار چھینے کی جرات کر رہے ہوگے، اُنکا ذریع معاش قتل کرنے کی کوشش کرو گے۔ اب بتاؤ اِس حرکت میں کیا برکت ہو گی ؟ تم کیسے کامیاب ہو گے ؟ اگر کامیابی تمھاری جھولی میں آبھی گری تو تم سکون و اطمینان کہاں سے لاؤ گے۔ اُس کے ہر سوال میں ایک تیر تھا، میں نے لمحہ بھر کو سب کچھ بھلا دیا اور اس سے پوچھا ۔

اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟ ۔ میں اپنے اندر لگی آگ کیسے بجھاؤں۔؟ اس نے کہا اپنا کاروبار شروع کرو۔ میں اس کے اس مشورے ہر ہکا بکا رہ گیا۔ میں اس سے پہلے اسے کچھ کہتا اس نے کہا کہ دیکھو تمھاری مارکیٹ میں جان پہچان ہے ، آدھا بحریں تمھیں جانتا ہے، تم تاجروں میں مقبول ہو تم اپنا کام کیوں نہیں شروع کرتے۔؟ اُس کے اِس مشورے کے بطن سے میرے کاروبارنے جنم لیا۔

ابتداء میں مجھے یہ انتقام کی فضول کوشش لگی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ میرا کاروبار چلنے لگا۔ میرے ملازمیں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ میری پرانی کمپنی کے ملازمیں میرے ساتھ کام کرنے کے بیتاب تھے ، انہوں نے میرے یہاں ملازمت اختیار کر لی۔ جوں جوں میری مارکیٹ میں ساکھ بنتی چلی گئی بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے آفرز آنے لگیں یوں ٹریڈنگ میں میرا نام گونجنے لگا، اُسکے بعد میں اے سی فٹنگ کی فیلڈ میں اترا ، اور بحریں کی بڑی بڑی کمپنیوں نے کسی تردد کے بغیر مجھے ٹھیکے دے دیے۔

میرے سامنے نئی منزلیں تھیں۔ انتقام کی آگ پر میں نے محنت کی ہانڈی چڑھا کر اس میں حلال کھانا بنانے کا گر سیکھ لیا تھا ۔ اِسکے بعد میں تعمیرات کے شعبے میں قسمت آزمانے چلا آیا۔ بحریں ان دنوں سعودی عرب کی رنگیں بیٹھک بن رہا تھا، ہوٹلنگ انڈسڑی سر اٹھا رہی تھی ، سڑکوں کے جال پھیلتے چلے جا رہے تھے اور جدت جنم لے رہی تھی۔ یہیں سے بھی میری دولت میں اضافہ ہونے لگا۔

اُسکے بعد میں نے کوئی ایسی فیلڈ نہ چھوڑی جس میں سے چند دینار منافع ملنے کا بھی امکان ہوتا۔ میں کبھی کبھی بے روزگاروں کو روزگار دینے کے لیے کوئی نیاء پراجیکٹ شروع کر لیا یا کسی نئی فیکٹری کی بنیاد رکھ دیتا اور پھر اللہ تعالٰی کی ذات مجھے وہاں سے بھی منافع دلوا دیتی جہاں سے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی تمام تر قوت کے باوجود نقصان اٹھا کر رخصت ہوتی تھیں۔

میں مٹی کو ہاتھ لگا تو وہ سونا بن جاتی، میں پانی لے کر نکلتا تو وہ بھی اچھے داموں فروخت ہو جاتا اور لوگوں کا تیل بھی کوئی نہ خریدتا، میں نے صحرا میں کباڑ کا گودام بنایا اورکامیاب ہو گیا۔ میرے ملازمیں اردو و ہندی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کرنے سے قاصر ہیں لیکن میں عربوں اور گوروں سے بلین ڈالرز کا بزنس کر رہا ہوں۔ میں ہر نماز میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں انتقام کی بھٹی میں گرا نہیں۔

میں نے اپنے اندر لگی آگ پر کچی سوچ و فکر کی اینٹیں تیار کیں اور انہی سے اپنی جاگیر بنا ڈالی۔ اگر میں اِس آگ سے کسی کا گھر جلا نے کی کوشش کرتا تو یقینا وہ آگ ایک دن ضرورد میرے دروازے پر بھی دستک دیتی ۔ میں خاموشی سے اُنکی باتیں سن رہا تھا ، میرے ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی، میں نے پیالی میز پر رکھی اور پوچھا۔۔۔۔ یہ بتائے کہ اُس کمپنی کا کیا ہوا جس نے آپ کو نکال دیا تھا۔

۔۔؟ وہ مسکرا دیے اور بولے تم اُسی کمپنی کے آفس میں بیٹھے ہو۔۔ اِس کمپنی نے بنک سے قرض لے رکھا تھا ۔ وہ قرض چکا نہیں سکے اور اُنکی بلڈنگ کی نیلامی ہوئی اور میں نے وہ ساری کی ساری پراپرٹی بلند تریں بولی دے کر خرید لی۔ انہوں نے ایک قہقہہ لگا اور کمرے میں موجود شیشے کی کھڑکی سے ایک آفس ٹیبل پر بیٹھے سمارٹ نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔

۔۔ یہ وہی نوجوان ہے جس کے والد کی کمپنی میں کبھی میں ملازم ہوا کرتا تھا اور اِسی نے مجھے نوکری سے برخاست کیا تھا۔ جبکہ اِس کے والد نے سفارش کی تھی کہ میں اُسے نوکری دے دوں اور آج یہ میرا ملازم ہے۔ میری آنکھوں ، دماغ اور حواس پر حیرت کا پردہ چھا گیا۔ خد ا نے میرے سامنے دونوں امثال ایک ہی دن اورایک ہی جگہ ظاہر کر دیں تھی۔ میرے عزیز دوستوں ہم انتقام کی تلاش میں اپنے گھر کو جلا کر اُسکی راکھ سے کھیل کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہیں میں ایسا کوئی فتور موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے درگزر سے کام لیجیے اور اپنی توانائیاں کسی مثبت کام میں خرچ کیجیے ۔صرف اتنا یاد رکھیے گا کہ آپکا مقصد اپنے آپ اور اپنے خاندان کو اس آگ میں گرنے سے بچا نا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :