اندھا بہرا لندن

جمعرات 16 جولائی 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

14اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے، لیکن تنہا 14اگست ہی نہیں ، ایک اور تاریخ بھی آزادی کی ہے ، وہ 27 رمضان ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ دو بار پاکستان آزاد ہوا، جیسا تیسا بھی ہوا، ایک بار ہی ہوا، ویسے اہل نظر کے خیال میں پاکستان آزادی کے ساتھ ہی نئی غلامی میں چلا گیا تھا، لیکن جس دن اس کو نام ملا ، دنیا کے نقشے پر اس کا وجود ابھرا ، اس کو ایک مملکت اور ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا، وہ دن بہر حال موجود ہے ، اس دن 1947کے اگست کی14تاریخ تھی ، اور 1366ہجری کے رمضان کی 27ویں تھی، گویا شمسی کیلنڈر کے حساب سے پاکستان 68 سال کا ہوا چاہتا ہے ہے جب کہ قمری کیلنڈر کے اعتبار سے پاکستان کی عمر 70سال ہو گئی ہے ۔


####
دینی جماعتیں اور شخصیات ہمیشہ سے فرمائش کر تی آئی ہیں کہ 14اگست کی بجائے 27رمضان کو یوم آزادی بنایا جائے۔

(جاری ہے)

حکومت ان کا یہ مطالبہ نہیں مان سکتی ، بھلا یہ بھی کیسا یوم آزادی ہوا ، اس روز بھنگڑے ہوں نہ زور شور ے ناچ گانے کی تقریبات ، یہ تو گھٹی گھٹی اور پھنسی پھنسی آزادی ہوگی ، اس سے بہتر ہے کہ آزادی ہو ہی نہ ۔ آزادی تو آزادی ہوتی ہے ، کوئی پابندی نہ ہو، کوئی پہن کے ناچے یا ننگے ناچے ،کرنے کو تو لوگ یہ بھی کر ہی لیں ، کیا ہوا ،جو 27رمضان ہو گا، لیکن پھر دینی جماعتیں ہی سب سے زیادہ شور مچائیں گی ، حکومت میں شریف شرفاء قسم کے لوگ بھی ہوتے ہی ہیں آخر ، ان کو بھی یہ بہت برا لگے گا،ایک نیا فساد کھڑا ہو جائے گا، اس لیے حکومت تکلفات میں نہیں پڑتی۔


####
”جاؤ جو ہو سکتا ہے ، کر لو، دم ہے ، تڑ ہے ، کچھ ہمت ہے تو کر کے دکھاؤ، چیلنج ہے ، عام للکار ہے ، کراچی کے دو کروڑ عوام و خواص کو ، سندھ حکومت کو ، وفاقی حکومت کو ، عدالتوں کو ، ہم منہ چڑا رہے ہیں ، چڑاتے رہیں گے ، تنگ کر رہے ہیں ، کرتے رہیں گے ، رات میں دن میں ، صبح میں شام میں، سحری میں افطار میں ، تراویح میں ، شب قدر میں،ہماری مرضی ، کے الیکٹرک ہمارا ہے ، ہم جو چاہیں کریں ، جیسے چاہیں کریں ، کون ہے جو ہماری ٹانگ میں میں ٹانگ اڑائے ، ہم ٹانگ مروڑ دیں گے ، ٹیڑھی میڑھی کر دیں گے ۔

خبر دار جو کوئی ہمارے قریب آیا۔ “
####
” کیا کہا کراچی میں پانی نہیں ہے ، کیوں نہیں ؟ پیسے دو پانی لو ، کتنے ٹینکر چاہییں ؟ بولو ، کہاں پہنچانے ہیں ، ایک مانگو ایک دیں گے ، دس مانگو،دس دیں گے ،تعداد اور مقدار تمھاری مرضی کی ،دام ہماری مرضی کے ہوں گے ، کیا کہا سرکاری نلکے میں نہیں آ رہا، ارے یہاں سارے نلکے سرکار کے ہیں، ہر نلکا سرکار کا ہے ، سرکار جب چاہے جہاں سے چاہے ، جتنا چاہے پانی نکال کر دکھا دے ۔

۔
####
”بڑے آئے صفائی پسند ، ہوں یہ بھی کوئی ناک بھوں چڑھانے کی بات ہوئی بھلا ، گٹر ابل رہے ہیں ابلا کریں ہوتے ہی ابلنے کے لیے ہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہیں تو لگا کریں ، کسی سے کچھ مانگتے ہیں ؟ کسی کا کیا بگڑتا ہے ، جس کو بو آتی ہے ناک میں ڈاٹ لگوا لے ، نہیں آئے گی، کسی کو بازار جا نے باہر جانے سے الٹی آتی ہے تو کر دے اس کوسیدھا، طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں ، ڈاکٹر کچھ نہ کرسکیں تو گور کن کی خدمات حاصل کریں اور سکون حاصل کریں۔

وہاں بھی چین نہ آئے تو جو مرضی کریں ۔ “
####
وفاقی وزیر داخلہ کا خیال ہے الطاف بھائی لندن میں بیٹھ کر بھارت کی بولی بول رہے ہیں،لندن حکومت سے بات کرنا پڑے گی۔چودھری صاحب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کھل کر بات کریں،آپ یہ چاہتے ہیں کہ الطاف بھائی بات نہ کریں ، بولیں نہ، یا یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بولی بولیں ،یاپھریہ چاہتے ہیں کہ جو بولنا ہے پاکستان آکر بولیں، پاکستان کی بولی ہی بولنا ہوتی تو لندن کیوں جاتے ، یا واپس کیوں نہ آتے ، لندن حکومت سے آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں کوشش کر دیکھیں،ہم نے تو سنا ہے لندن حکومت اس بابت بہری اور اندھی ہے ، اس کو نظر آتا ہے نہ سنائی دیتا ہے، یہ بھی سنا ہے لندن کے ادارے آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں ، انہیں بڑا مزہ آرہا ہے ،آپ کو نہیں آرہا تو کیا کیا جا سکتا ہے ۔

یاد رکھیے! الطاف بھائی کے چاہنے والوں میں ”را“ ہی نہیں ، ”ایم آئی سکس“ بھی ہے بلکہ ”سی آئی اے“ بھی ہے اوربولیں کافی ہے یا کچھ اور سنیں گے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :