جو دیکھنا چاہتے ہیں!

منگل 14 جولائی 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

زندگی کیا ہے ؟کیا صرف وہ جو ہم گزارتے ہیں یا زندگی کا کوئی دوسرا رخ بھی ہے ؟
ایک روزباغ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ،باغ رنگا رنگ پھولوں سے بھر ا تھا ،ایک دن ان خود رو پھولوں میں سے ایک کی طبیعت نے جوش مارا اوروہ پتھروں کی آڑ سے باہر سر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا ،وہ کافی دیر تک باہر کی دنیا کا جائزہ لیتا رہا ،اسے ایک گلاب کا پھول دکھائی دیا جو آسمان کی جانب سر اٹھائے کھڑا تھا ، گلاب کا پھول بڑا خوبصورت دکھائی دیتا تھا ، لوگ اس کے پاس آتے ، تھوڑی دیر کے لیئے رکتے ،اس کی خوشبوسونگھتے،اس سے پیار کرتے اور اسے چھوتے ہو ئے گزر جاتے ۔

گھاس کے پھول کے لیئے یہ ایک نیا تجربہ تھا، اس نے اب تک یہی دیکھا تھا کہ لوگ گھاس اور خود رو پھولوں کو روندتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں ، انہیں چھونا اور انہیں پیار کرنا تو دور کی بات کوئی انہیں ہاتھ تک نہیں لگاتا ۔

(جاری ہے)

گھاس کا پھول یہ سب منظر دیکھ کر بہت مایوس ہوا ، اسے رہ رہ کر اپنی بے وقعتی کا احساس ہونے لگا ،وہ خود کو کوستا ،اپنی قسمت کا ماتم کرتا اور گلاب کے پھول کی خوش قسمتی دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتا۔

آخر ایک دن اس کے دل میں بھی گلاب کا پھول بننے کی خواہش ابھری اور وہ سوچنے لگا ”کیا میں گلاب کا پھول نہیں بن سکتا “کیا میں اپنی کھلی آنکھوں سے دنیا کا نظارہ نہیں کرسکتا اور کیا میں دنیا کے خوبصورت ہاتھوں کا لمس حاصل نہیں کر سکتا ؟کیا میں سورج کی طرف آنکھیں کھول کر نہیں دیکھ سکتا ،کیا میں سور ج کی طرف نہیں لپک سکتا اور کیا میں اس کائنات کی خوبصورتی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔

ایک دن اس نے خد اسے دعا مانگی کہ اسے بھی گلاب کا پھول بنا دے۔کائنات نے جواب دیا ”تم پاگل مت بنو ،تم بے حد محفوظ ہو،تم ہزاروں دن جیتے ہو ،تمہاری زندگی ہزاروں دنوں پر محیط ہے ،جبکہ گلاب کے پھول کی زندگی صبح شروع ہوتی ہے شام کو ختم ہو جاتی ہے ،گلاب صبح کھلتا ہے شام کو مرجھا جاتا ہے ،آندھی یا طوفان آ ئے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور منٹوں میں زمین پر گرکر بے نشان ہو جاتا ہے“۔

گھاس کے پھول نے یہ تقریر سنی تو جواب دیا ”میں یہ سب کچھ جانتا ہوں ،مجھے اپنی طویل عمری اور گلاب کی ایک روزہ زندگی کا احساس ہے ،در اصل ہمارے طویل عرصہ تک زندہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم پر جوبن آتے وقت لگتا ہے ، ہم میں نمی بھی نہیں ہوتی اس لیئے ہم جلدی مرجھاتے بھی نہیں تاہم جو بھی ہے مجھے گھاس کا پھول بننا منظور نہیں میں گلاب کا پھول ہی بننا چاہتا ہوں ۔

میں گلاب کے پھول کی طرح کھلنا چاہتا ہوں ،میں گلاب کی طرح نرم و نازک ہاتھوں کا لمس چاہتا ہوں ، میں گلا ب کی مخملی پتیوں کا مالک بننا چاہتا ہوں اور میں گلاب کی طرح قدر و قیمت پانا چاہتا ہوں ۔میں پتھروں سے بنی اس دیوار کے پیچھے زندگی نہیں گزار سکتا اور میں ایسی زندگی سے دور بھاگنا چاہتا ہوں جو صرف مجھ تک محدود ہو ،میں کھلے آسمان کی فضاوٴں میں جینا چاہتا ہوں ، میں کھلے آسمان تلے نشوونما پانا چاہتا ہوں ،میں ستاروں کے جھرمٹوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں اورمیں کھلی ہواوٴں ،کھلی فضاوٴں ،کھلے دریا ،کھلے سمندر اور آوارہ پانیوں کی ہمنشیی کا راز پانا چاہتا ہوں “۔


گھاس کا پھول ضد پر قائم تھا ، اس کے ساتھی پھولوں نے اسے سمجھایا اور اسے اس آوارہ خواہش سے باز رکھنے کی کوشش کی ،انہوں نے اسے سمجھایا ”تمہارا دماغ چل گیا ہے ،ہماری روایات اور ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا ، ہم گھاس کے پھول ہیں اور ہماری اوقات یہی ہے ،ہمیں ایسے ہی جینا ہے اور یہی ہماری زندگی ہے ۔ہم صدیوں سے انہیں پتھروں اور انہیں سنگلاخ چٹانوں پرزندگی گزارتے آئے ہیں ،ہمارے آباوٴ اجداد بھی انہی پہاڑوں پر زندگی گزار کر چلے گئے ، ہم نے انہی پتھروں میں جینا اور انہی میں دفن ہونا ہے ،تم کیسی باتیں کر رہے ہو شاید تم پاگل ہو گئے ہو ،تم دوسروں کی صحبت میں رہ کر بگڑ گئے ہو ،تمہیں اپنی حدود میں رہنا چاہیئے ،ہماری یہ روایات ہیں اور نہ ایسی فضول خواہشات ہمیں زیب دیتی ہیں ۔

تم اگر اس جگہ سے باہر گئے تو تمہاری جان کو خطرہ ہو گا، تم دیکھتے نہیں کہ گلاب کے پھولوں کو کیا کچھ بھگتنا پڑتا ہے ،تم نے دیکھا نہیں جب کل طوفان آیا تھا سارے پھول زمین پر گرے پڑے تھے ،چند دن پہلے جب بارش آئی تھی تو گلاب کی پتیاں آنسو بہاتی پھرتی تھیں کوئی ان کاپرسان حال نہیں تھا اور پرسوں جب تیز آندھی چلی تھی سارے گلاب کے درخت جڑوں سے اکھڑ گئے تھے ،جبکہ ہم اس جگہ مکمل محفوظ ہیں ، آندھی آئے یا طوفان ہمیں کوئی خطرہ نہیں ، ہم آرام سے پڑے رہتے ہیں“ ۔

گھا س کے پھول نے اپنے دوستوں کی تقریر توجہ سے سنی اور بولا ”میں آپ سے متفق نہیں میں ایک دن کے لیئے ہی کیوں نہ سہی میں ایک دن ضرور گلا ب بنوں گا ، مجھے خود پر اعتماد ہے اور مجھے یقین ہے ایک دن میں اپنے خدا کوبھی اپنے ارادوں سے متفق کر لوں گا ، اگر آپ دوسروں کو متفق کر نا چاہتے ہیں تو پہلے خود اپنے آپ سے متفق ہوں “۔چناچہ ایک دن خدا نے گھاس کے پھول کی سن لی اور اگلی صبح وہ گلا ب کا پھول بن گیا ،جونہی سورج طلوع ہوا ، آسمان پر بادل جمع ہونا شروع ہو گئے ، کچھ ہی دیر میں تیز آندھی چلنے لگی ، آسمان سیاہ بادلوں سے بھر گیا ،اس کے دوستوں نے چلانا چروع کر دیا ”تم پاگل نکلے، تم نے اپنی زندگی کو خود خطرے میں ڈالا ، اب تم بہت جلد مر جاوٴ گئے ، تم نے ایک لمحے کی خوشی کے لیئے اپنی طویل زندگی گنوا دی ، صرف ایک لمحے کے لیئے گلاب بننے کی خواہش نے تمہارا مستقبل تم سے چھین لیا “۔

کچھ ہی دیر بعد تیز آندھی اور طوفانی بارش شروع ہو گئی ،گلاب کا نازک تنا ہوا کے زور سے ادھر ادھر ہلنے لگا ، اس کی پتیاں ٹوٹ کر بکھرنے لگیں ،تیز ہوا سے پتے جھڑنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد گلاب کا پودا گیلا اور کمزور ہو کر جڑوں سے اکھڑا اور زمین پر آ گرا ،گلاب کے پھول اور موت کے درمیان چند منٹوں کی دوری تھی ، اتنے میں اس کے دوست اس پاس آکر جھکے اور کہنے لگے ”تم کس قدر بے وقوف نکلے ، کھلے آسمان تلے نشوونما پانے کی ضد نے تمہیں وقت سے بہت پہلے مار دیا ، ہم ابھی کتنا عرصہ مزید جیئں گے اور تم ابھی سے مرکر ہمیشہ کے لیئے فنا ہو جاوٴ گے“گلاب کے پھول نے مرتے ہوئے جواب دیا ”دوستوں!میں نے ان چند لمحوں میں جو جانا وہ پتھروں کے سائے تلے طویل زندگی میں بھی نہیں جان پایا ،ایک لمحے کے لیئے آسمان کی جانب بڑھنا ، طوفان کے خلاف جدو جہد کرنا ، کھلی ہواوٴں اور آذاد فضاوٴں میں سانس لینا ، اپنی ننھی اور نرم شاخوں سے طوفان کا مقابلہ کرنا ،بھرپور انداز میں کھلنا ،خوشبوئیں بکھیرنا ، نرم و نازک ہاتھوں کا لمس حاصل کرنا اور کھلی آنکھوں سے تاروں بھری رات کا نظارہ کرنا یہ سب چند لمحات ہی سہی اصل زندگی یہی ہے اور میں نے یہ زندگی پالی ہے ۔

تم کبھی نہیں جان پاوٴ گے کہ جد و جہد کیا ہوتی ہے ، سورج کا سامنا کرنے میں کتنا مزہ ہے ، طوفان میں زندگی گزارنا کیا معنی ٰ رکھتا ہے ۔تم ہمیشہ سے ان پتھروں کی آڑ میں محفوظ زندگی گزارتے آئے ہو ،تم یہیں پیدا ہوئے ، یہیں جوان ہو ئے ،یہیں زندگی گزاری اور یہیں مر جاوٴ گے تمہارا زندہ رہنا اور مر جانا ایک جیسا ہے اور یہی تمہاری زندگی ہے “
زندگی وہ نہیں جو ہم گزارتے ہیں بلکہ زندگی کا دوسرا رخ بھی ہے اور یہ صرف انہیں دکھائی دیتا ہے جواس کی جستجو کرتے ہیں ،اسے تلاش کرتے ہیں اوراسے کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :