دوستی مگر کس قیمت پہ !

منگل 14 جولائی 2015

Ahmad Hamza

احمد حمزہ

روس کے شہر اوفا میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان طے شدہ ملاقات ہوئی جو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں مبصرین کی حیثیت سے شرکت کر رہے تھے۔ دونوں رہنما 2010کے آخر میں کھٹمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس کے بعد پہلی مرتبہ ملے ۔ 2014میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے بعد پائی جانے والی گرمجوشی کے تھوڑے ہی عرصے بعد تعلقات دوبارہ تناﺅ کا شکار ہو گئے تھے۔

کشمیری علیحدگی پسندوں کے معاملے پر بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات بھی منسوخ کر دیئے تھے۔ اب کی بار دونوں رہنماﺅں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو بریک تھرو قرار دیا جا رہا تھا مگر ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے ۔ ۔ آدھے گھنٹے پر محیط یہ ملاقات تھی مگر اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ دونوں راہنما تمام معا ملات کا حل بات چیت کے زریعے تلاش کرنا چاھتے تھے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے اپنے مفادات تھے اور ہندوستان کے اپنے ۔اور یہ موقع تھا کہ ایک دوسرے سے کھل کر اپنے اپنے مفادات اور تحفظات پر بات کرنے کا۔بھارت نے اس موقع کا بہت اچھا استعمال کیا اور ایک طرح سے پاکستان کے آگے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ۔ جن میں سر ِ فہرست بمبیُ حملہ کیس کی تفتیش میں ہر طرح کی مدد اور معاونت فرا ہم کرنا بلکہ اس بات تک پاکستان کو راضی کر لیا گیا کہ بمبیُ حملہ کیس کے نامزد ملزمان کی آواز کی شناخت کے لیے بھی پاکستان ہر طرح کی مدد کرے گا۔

پاکستان جو کہ خود دہشت گردی جیسی لعنت کے خلاف نمرد آزما ھے اور اس جنگ میں اپنے معصوم سکولوں کے بچے تک قربان کر بیٹھا ھے مگر افسوس اتنی عظیم قربانیوں کا اعتراف تو درکنار عا لمی سطح پر الٹا پاکستان کو ہی موردِالزام ٹھہرایا جاتا ھے۔ اوراس الزام میں بھارت ہمیشہ پیش پیش رھا ھے۔ اس ملاقات کے دوران ہونا تو یہ چا ھیے تھا کہ پاکستان کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا اور مودی کو ان کے دیے گےُ بیانات پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا اور 71 کی جنگ کے حوالے سے ان کے کردار پر بھی بات ھوتی مگر نہ جانے کونسی مصلحت آڑے آیؑ تھی جس نے پاکستان کے وزیر اعظم کو خاموش کیے رکھا
پاکستانی حکومت کا بھا رت کے ساتھ دوستی کے لیے یوں بچھ جانا حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پر یشان کن بھی ہے۔

پاکستان کس قیمت پر بھارت کے سامنے اس قدر اطا عت گزار بن گیا ھے ۔ ۔ ۔بھارت نے اس موقع پر پاک چا ینہ اکنامک کو ریڈور پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان نے کشمیر میں جاری ظلم پر بات کرنا تو دور کی بات یہ بھی مناسب نہیں سمجھا کہ بلو چستان میں را کی سرگرمیوں کے حوالے سے بات کی جاےُ حالانکہ قومی زرایؑع ابلاغ میں تو آۓ روز بیان بازی تو ہوتی رھتی ھے مگر مودی کے سامنے تو کو یُ بات تک نہ کی جا سکی۔

اگر اس ساری ملاقات کے حا صل حصول کو دیکھا جاےُ تو پاکستان کی پو زیشن میں کافی حد تک پسپا یُ نظر آتی ھے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے بھارت قبول کی طرف سے دہشت گردی کے تعریف کو قبول کر لیا ۔ دونوں رہنماﺅں کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کا ایک اجلاس نئی دلی میں منعقد کیا جائے گا جس میں دہشت گردی کے مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔

بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس اور پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرلز کی ملاقات ہو گی اور اس کے بعد ڈی جی ایم اوز بھی ملاقات کریں گے۔ حالانکہ آخری بار دسمبر 2013میں ملاقات ہوئی تھی تاہم یہ بے نتیجہ اور مایوس کن رہی تھی۔ نریندر مودی اور نوازشریف نے ماہی گیروں کی رہائی کا معاملے پر بھی اتفاق کیا ہے اور اس بات پر بھی میں اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک میں مذہبی معاملات کیلئے ایک سے دوسرے ملک میں جانے والوں کو زیادہ سے ذیادہ سہو لتیں فراہم کریں گے۔

پاکستان میں جس بات پر شادیانے بجاےُ جا رھے ھیں کہ نریندر مودی اگلے برس اسلام آباد میں ہونے والے سارک کے 19ویں اجلاس میں شرکت کریں گے اور مودی نے پاکستان آنے کی دعوت قبول کر لی اور یہ پاکستان کی بہت بڑی فتح ھے ۔ اگر یہ دورہ ہو جاتا ہے تو اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے بھارتی و زیر اعظم ہوں گے۔ بات چیت کے عمل سے کبھی انکار نھیں کیا جا سکتا لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ھے کہ بات چیت کن شرا یُط پر کی جا رہی ھے ۔

کیا مزاکرات برابری کی سطح پر ہو رے ہیں یا کہ نہیں۔ موجودہ مزاکرات میں تو بھارت کا پلہ بھاری رہا اور اپنی من مانی شر ایط پر بات چیت کا یہ عمل مکمل ہوا۔ بلکہ دیکھنے والوں نے تو یہ بھی دیکھا کی مودی ،نواز شریف کی طرف صرف چند قدم ہی آگے بڑھ کر ملنے آیا ۔ پاکستان نےاس ملاقات سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کیو نکہ مودی کی اقتدار سنبھالنے کی تقریب کے بعد یہ پہلی باقا عدہ ملاقات تھی ۔

اور پاکستان کی خواہش تھی کہ خطے میں امن کو ایک موقع دیا جا ےُ لیکن بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا اور مشترکہ اعلامیہ کے تھوڑی دیر کے بعد ہی یہ کہہ کر ساری کو ششوں پر پانی پھیر دیا کہ یہ کویُ حتمی بات نہیں کہ مودی پاکستان کا دورہ کریں گے بلکہ اس بات کا تعین وقت آنے پر کیا جاےُ گا۔ بھارت کی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے آج تک خطےمیں امن کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ اور اگر دونوں ملکوں کے عوام کی زندگی بدلنی ہے تو دونوں ملکوں کو اپنے ماضی کے جھگڑوں کا حل مل بیٹھ کر نکالنا ھو گا اور اس کے لیے سب سے ضروری ہے کہ خلو صِ نیت سے امن کی کو ششوں کو فرو غ دیا جاےُ تا کہ خطے کی تقد یر بد ل سکے اور دونوں ملکوں کی عوام کا معیارِ زندگی تبد یل ھو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :