تحقیقاتی کمیشن کی کارروائی مکمل

پیر 6 جولائی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

3 جون کوصدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کیے گئے تحقیقاتی کمیشن کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان محترم ناصرالملک نے وکلاء کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ وہ اب چھٹیاں منائیں اورکمیشن کو اپناکام کرنے دیں ۔یہ کمیشن تین بنیادی سوالوں کی تحقیقات کرنے اورکسی نتیجے پرپہنچنے کے لیے تشکیل پایا۔ 21 میں سے 19 سیاسی جماعتوں نے کمیشن سے رجوع کیالیکن سوائے تحریکِ انصاف کے کسی سیاسی جماعت نے سماعت میں حصہ نہیں لیا البتہ 39 دنوں کی کارروائی میں کپتان صاحب تقریباََہر کارروائی میں شریک ہوئے۔

کمیشن کی ایک کارروائی میں تو وہ محترمہ ریحام خاں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے جس میں تھوڑی بَدمزگی اِس طرح پیداہوئی کہ جونہی خاں صاحب تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پہنچے تووہاں استقبال کے لیے آئی ہوئی خواتین نے خاں صاحب کے ساتھ ”سلفی“بنانی چاہی جس پرریحام خاں نے اُنہیں جھڑکتے ہوئے کہاکہ وہ اب کپتان صاحب کی ”بلاشرکتِ غیرے“مالک ہیں اِس لیے اب ایسانہیں چلے گا۔

(جاری ہے)


تحقیقاتی کمیشن کی ہرسماعت کے بعد نوازلیگ اورتحریکِ انصاف ،دونوں کی جانب سے ”کھڑاک“ ہوتارہا۔ ایک طرف عمران خاں اور اُن کی ٹیم جبکہ دوسری طرف دانیال عزیز ،طلال چودھری اورانوشہ رحمٰن۔ عمران خاں تحقیقاتی کمیشن سے باہرنکلتے ہی نعرہ زَن ہوتے کہ ”آج تومنظم دھاندلی ثابت ہی ہوگئی“جبکہ دوسری طرف سے آوازآتی ”ہم نے منظم دھاندلی کے الزام کو”پھڑکا“ کے رکھ دیا۔

تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان محترم ناصرالملک باربار تنبیہ کرتے رہے کہ ہرروز باہرلگنے والا تماشا بندکیا جائے لیکن تحریکِ انصاف نے اِس پرکان دھرے نہ نوازلیگ نے اور ”تماشا“ جاری رہا۔39 دِن جاری رہنے والے اِس تماشے کا اختتام ہوا ، اب فیصلے کاانتظار ہے ۔نوازلیگ کہتی ہے کہ فیصلہ اُس کے حق میںآ ئے گاجبکہ تحریکِ انصاف کے محترم عمران خاں سمیت تمام رہنماء کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ”منظم دھاندلی“ کے مکمل ثبوت فراہم کردیئے ۔

سونامیے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک لاکھ چھبیس ہزارکاغذات پر مشتمل دھاندلی کے ثبوت تحقیقاتی کمیشن میں جمع کروائے لیکن نوازلیگ ”ایویں خواہ مخوارَولا“ ڈال رہی ہے کہ یہ سارے تو ”رَدی“ کاغذ تھے جن کا 2013ء کے الیکشن سے کوئی تعلق نہ واسطہ۔ یہ کاغذات اب کارروائی کاحصہ ہیں اور تحقیقاتی کمیشن انہی کاغذات میں سے اُس ”گیدڑسنگھی “ کو تلاش کرے گاجو کپتان صاحب کواقتدار کے اونچے ایوانوں تک پہنچاسکے اوراُن کے ادھورے خواب پورے ہوسکیں۔

ہمارے پاس اندرکی خبریں دینے والی کوئی ”چڑیا“ تونہیں ، اِس کے باوجودبھی یہ یقین کہ انتخابات تو2018ء ہی میں ہوں گے جن میں”نئے پاکستان“کی بنیادبھی رکھ دی جائے گی ۔اگر 2015ء میں الیکشن کروانے ہیں تواُس کاایک ہی طریقہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں اور ہمارے کپتان صاحب پورے پاکستان میں تین چوتھائی اکثریت سے کامیاب ہوکر وزارتِ عظمیٰ کا تاج اپنے سرپر سجالیں لیکن محترم بھائی عطاء الحق قاسمی کے خیال میں ایسا ہوناممکن نہیں۔

وہ کہتے ہیں ”خاں صاحب کئی ماہ تک دھرنادیئے بیٹھے رہے اوربچوں کی طرح ٹانگیں پسار کرمچلتے رہے اورضد کرتے رہے کہ میں نے پاکستان کاوزیرِ اعظم بنناہے مگرنواز شریف بھی اتنے سنگدل نکلے کہ اُنہوں نے اِس ”بچے“کی ایک معصوم سی ضد پوری کرنے کے لیے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیناگوارا نہ کیا“۔سونامیے کہتے ہیں کہ اُنہیں کسی کی بھیک نہیں چاہیے ، وہ جوکچھ بھی کریں گے اپنی ”سونامی“کے زورپر ہی کریں گے خواہ اِس کے لیے اُنہیں دوسرا جنم ہی کیوں نہ لیناپڑے۔

ویسے یہ نوازلیگ کے لیے لمحہٴ فکریہ ہوناچاہیے کہ جیالے اورجیالیاں اب پیپلزپارٹی سے مایوس ہوکر” سونامیے اورسونامیاں“ بنتے جارہے ہیں اور اوکاڑہ میں تو سوائے منظوروٹو کے سارے جیالے تحریکِ انصاف میں شامل ہوگئے ۔جیالوں کو صرف ”ڈھوم دھڑکے“ والی جماعتیں ہی راس آتی ہیں اسی لیے اُنہوں نے تحریکِ انصاف کاانتخاب کیا۔ اگرنوازلیگ کے جلسے جلوس”ٹھنڈے ٹھار“ نہ ہواکرتے توجیالے اِس طرف بھی رجوع کرسکتے تھے۔

ایک اوربات کہ تحریکِ انصاف کاسب سے زیادہ فائدہ ”لوٹوں“ کوہوا ہے ۔پہلے صرف نوازلیگ اورپیپلزپارٹی ، صرف دوجماعتیں ہوا کرتی تھیں اور لوٹے ”پھُدک“ کرکبھی اِدھراور کبھی اُدھرلیکن اب اُنہیں انتخاب کرنے میں آسانی اورمیدان وسیع ۔ اب جیالے اورسونامیے مِل کروہ دھوم دھڑکاکریں گے کہ نوازلیگ کو لگ پتہ جائے گا۔
سونامیے کہتے ہیں کہ اُنہیں کچھ کچھ شک ہونے لگاہے کہ تحقیقاتی کمیشن میں فیصلہ اُن کے خلاف بھی آسکتا ہے اِس لیے اُنہوں نے حفظِ ماتقدم کے طورپر مولاناطاہر القادری کوبھی پاکستان بلالیا ہے تاکہ بوقتِ ضرورت اُن کے ”مریدین“کو بھی استعمال میں لایا جاسکے ۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لال حویلی والے صاحب توپچھلے سال متواترکہتے رہے کہ ”قربانی سے پہلے قربانی ہوگی“لیکن ہوا ”کَکھ“ بھی نہیں۔ وجہ شایدیہ تھی کہ اُنہیں ایوانِ وزیرِاعظم تک پہنچنے کی جلدی ہی بہت تھی، اسی لیے اُنہوں نے ”شارٹ کَٹ“ استعمال کیالیکن حسبِ وعدہ ”امپائر“ کی انگلی ہی کھڑی نہ ہوسکی اِس لیے وہ ناکام ہوگئے لیکن اب اِس عیدِقرباں سے پہلے سونامیوں کا قربانی کا ”پَکا“پروگرام ہے اِسی لیے کپتان صاحب 2015ء کوالیکشن کاسال قرار دیتے رہتے ہیں۔

محترم عمران خاں کے 2015ء کوالیکشن کاسال قراردینے کی تکرارسے گھبراکر ہمارے سپیکرقومی اسمبلی محترم ایازصادق نے سوچا کہ عمران خاں کے تواترسے جھوٹ بولنے کوبنیاد بناکر اُن پر آرٹیکل 62/63 کااطلاق کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔یہ آرٹیکلز ضیاء الحق مرحوم نے آئین کاحصہ بنائے مگراُن کے دَورسے لے کرآج تک اِن پرعمل درآمد ہو سکانہ آئندہ ہونے کی توقع کیونکہ اگریہ آرٹیکلز اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ لاگوہو گئے توپھرہماری اسمبلیوں میں ”ٹاواں ٹاواں“ بندہ ہی باقی بچے گا ۔

یہ بجاکہ خاں صاحب نے جلسے ،جلوسوں اور کنٹینرپر کھڑے ہوکر متعددبار کہاکہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ، سابق جسٹس سپریم کورٹ خلیل رمدے، ایم آئی کے ایک بریگیڈئیر ،سابق نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی اور جنگ ،جیوگروپ الیکشن 2013ء کی دھاندلی میں ملوث تھے ۔نجم سیٹھی کے 35 پنکچرزکی گونج توہواوٴں کے دوش پرسوار ہوکر بیرونی ممالک تک بھی جاپہنچی۔

خاں صاحب نے یہ بھی کہاکہ جعلی بیلٹ پیپراُردوبازار لاہورسے چھپوائے گئے لیکن تحقیقاتی کمیشن میں اِن میں سے کچھ بھی پیش نہیں کیاگیا۔ تحریکِ انصاف کے رہنماء نعیم الحق کہتے ہیں کہ اُن کے وکیل حفیظ پیرزادہ صاحب نے کہاتھا کہ ایسے الزامات جنہیں ثابت نہ کیاجا سکے ،تحقیقاتی کمیشن میں پیش نہیں کرنے چاہییں، اِس لیے تحقیقاتی کمیشن میں اِن لوگوں کے نام پیش نہیں کیے گئے جبکہ محترم عمران خاں نے حامدمیر کو35 پنکچروں کے بارے میں سوال کاجواب دیتے ہوئے کہا”یہ توایک سیاسی بیان تھا“۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خاں صاحب اب ”پَکے“ سیاستدان ہوگئے ہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست جھوٹ کادوسرا نام ہے اورخاں صاحب تواب جھوٹ اِس تواترسے بولتے ہیں کہ سچ کاگماں ہونے لگے ۔اگراِن ”سیاسی جھوٹوں“کو بنیادبنا کرایاز صادق صاحب ہمارے کپتان پہ آرٹیکل 62/63 لاگوکرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کی خام خیالی ہے ۔ وہ اِن آرٹیکلزکو نہ ہی چھیڑیں توبہتر ہے کیونکہ ہمارے پاس ”حاضرسٹاک “میں فی الحال ایسے ہی سیاستدان ہیں جوسیاست اورجھوٹ کو لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :