ٹی وی چینلز پر رمضان …ٹرانسمیشن کا مقابلہ؟

ہفتہ 4 جولائی 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ٹی وی چینلز کے زوال کا اُس وقت آغازہو گیا تھا جب ٹی وی چینلز نے پروفیشنلزم چھوڑ کر بھیڑ چال کو اپنا لیا تھا اور اِسی بھیڑ چال کو مقابلہ بازی کا نام دے کر ایک دوسرے سے آگے بڑھتے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی جب الیکٹرانک میڈیا میں کامیابی کا راز ریٹنگ قرار پایا تو پھر ٹی وی چینلز نے پروفیشنلزم کو یکسر پس پشت ڈال دیا اور کامیاب چینلز میں اپنا نام لکھوانے کے لئے بھیڑ چال کا شکار ہو گئے۔

بھیڑ چال کا لفظ مجھے بہتر لگا اِس لئے اس کا بار بار استعمال ضروری تھا۔
ٹی وی چینلز کے لئے پالیسی کون بناتا ہے ان کے پروگرام مانیٹر کہاں ہوتے ہیں۔ پیمرا نام کا ادارہ کوئی موجود ہے یا نہیں اس نشست میں بحث مقصود نہیں، غیر ضروری تمہیدپر بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ گزشتہ دو سال کے ٹی وی چینلز کا ریکارڈ جمع کر لیں تو اندازہ ہو جائے گا کسی ادارے کی اپنی پالیسی، یعنی منصوبہ بندی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ایک بڑا گروپ ایک پروگرام شروع کرتا ہے، اسی سہ ماہی میں دیگر دو چینلز بھی وہی پروگرام تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ شروع کر دیتے ہیں، نئی نسل کو گانے سکھانے کا دورہ پڑا تو تمام چینلز نے گانے اور ڈانس سکھانے کا بیڑا اُٹھا لیا۔ پھر ایک ٹی وی چینلز نے عاملوں کی کہانیاں، جن نکالنے کے پروگرام شروع کئے تو پھر یہ نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا، جاسوسی پروگرام شروع ہوئے تو پھر انڈین سی آئی ڈی ہر چینلز پر نظر آنے لگی۔

ایک دوسرے کی نقل انعامی پروگراموں میں تبدیل ہو گئی۔ گزشتہ چھ ماہ سے انعام دینے کے پروگراموں کو کامیابی قرار دیا جا رہا تھا کہ رمضان المبارک کا بابرکت ماہ آ گیا۔
گزشتہ سال کے رمضان المبارک میں رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر جو پنڈورا بکس کھلا آج تک قوم کو یاد ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا وہ مبارک مہینہ ہے جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔

ایک ایک نیکی کا ثواب سینکڑوں نیکیوں اور ہزاروں اور لاکھوں نیکیوں کی صورت میں ملنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں رب کائنات کی لامحدود رحمتیں بارش کی مانند برستی ہیں۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کو جانے والے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔
افسوس صد افسوس گزشتہ سال میں رمضان نشریات کے نام پر ہونے والی ڈرامہ بازی کا نوٹس نہ لیا گیا۔

پیمرا کے کسی افسر نے ایکشن نہ لیا، کسی مذہبی، سیاسی جماعت نے آواز بلند نہ کی، درد دِل رکھنے والے چند کالم نویس حضرات نے قلم کے ذریعے جہاد کر کے حق ادا کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر اس سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
اس کے مقابلے میں ٹی وی چینلز میں رمضان نشریات کے نام پر ہونے والی مقابلہ بازی نے ریٹنگ کے تمام ریکارڈ بنا ڈالے، مقابلے بازی کی اس دوڑ نے ٹی وی مالکان کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ رمضان المبارک جس کا دوسرا عشرہ جاری ہے۔ اس کے آغاز سے تین ماہ پہلے ہی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ مالکان نے غنیمت جانا اور مبارک مہینے کے آغاز سے پہلے ہی بڑے بڑے سٹوڈیو حاصل کر لئے۔ پندرہ روزے گزرنے کو ہیں، آج تک جو کچھ ہو چکا ہے وہ گزشتہ سال سے کہیں زیادہ ہے۔ رمضان نشریات کے نام پر مخلوط ڈرامہ بازی، انعامات کے لئے چھینا چھپٹی، نئے نئے لباس پہن کر پروگراموں میں نوجوان بچے بچیوں کی شرکت اور پھر فہم دین کے نام پر مقابلہ تمام چھوٹے بڑے چینلز پر جاری ہے اس لئے ممتاز عالم دین حضرات کا بھی فقدان دیکھنے کو ملا۔

نامور عالم دین تو نمازِ تروایح میں مصروف ہیں۔ ٹی وی والے مولوی حضرات بھی ایک ساتھ دس پندرہ چینلز پر نہیں بیٹھ سکتے۔ یہی حال نعت خواں حضرات کا ہوا، اس سال ٹی وی پر رمضان نشریات نے بہت سے نئے سکالر دانشور، عالم دین متعارف کرا دیئے ہیں اور نئے متعارف ہونے والے علماء حضرات نے رمضان لمبارک قرآن کریم کے فضائل جس انداز میں پیش کئے یہ ہمارے مذہبی فریضے سے کھل کھلا نحراف ہے۔

اس وقت جتنی اداکارائیں اداکار پروگرام کر رہے ہیں،80فیصد نئے ہیں، دین سے نہ آشنا فضائل قرآن سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔
مقدس ماہ میں ٹی وی چینلز پر دینی پروگرام کے نام پر سحری افطاری میں سٹیڈیم نما سٹوڈیو میں عورتوں، مردوں کی مخلوط محفلیں سجائی گئی ہیں۔ دینی پروگرام میں انتہائی سنجیدہ ماحول ہونا چاہئے وہاں انتہائی سنجیدہ سوالات انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں کئے جاتے ہیں، درست جواب دینے والوں پر انتہائی مضحکہ خیز انداز میں انعامات اچھال دیئے جاتے ہیں تاکہ محفل مزاحیہ بن سکے اگر کہا جائے مرد و زن کے مشترکہ قہقہوں کی گونج اور ساؤنڈ کی گونج کو ایک ساتھ ہوا میں اڑا کر تالیاں بجائی جاتی ہیں کیا یہ احترام رمضان ہے کیا یہ احترام قرآن ہے۔

کیا واقعی شیاطین قید کر دیئے گئے ہیں۔ بچے بچیاں سحری و افطاری قرآن کی برکات چھوڑ کر پانچ بجے ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں، نہ اچھے انداز میں افطار کرتے ہیں نہ سحری، نہ تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ترویح پڑھنے اور نماز باجماعت پڑھنے کی بجائے بچے بچیاں اب تو نوجوان اور بوڑھے بھی گھروں میں ٹی وی کے آگے سے اٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔


دینی شعائر کا مذاق اڑانے کا سلسلہ عذاب خداوندی کو دعوت دینا نہیں ہے خدا راہ سوچئے ہر طبقہ اس پر غور کرے، حکمران سوچیں، پولیس کے ذمہ داران سوچیں، پیمرا کے ذمہ داران سوچیں، وزارتِ مذہبی امور غور کرے۔اسلامی نظریاتی کونسل جائزہ لے۔
ہم کدھر جا رہے ہیں کون سا دین اپنے بچے بچیوں کو سکھا رہے ہیں، دین سے کھل کھلا انحراف ہمیں عذاب الٰہی میں مبتلا نہ کر دے۔

آخر میں ٹی وی مالکان سے درخواست کرنی ہے خداراغور کیجئے پروفیشنلزم اپنایئے، بھیڑ چال، مقابلے بازی اور ریٹنگ کے نام پر ہونے والی ڈرامہ بازی دُنیا میں تو آپ کو بظاہر کامیاب قرار دے سکتی ہے، مگر اللہ نے دین کا تمسخر اڑانے والوں کے لئے سخت عذاب رکھا ہے، والدین بھی اُٹھ کھڑے ہوں، ان کا مستقبل، بچے بچیاں تباہی کے راستے پر گامزن ہیں اب نہیں تو کبھی نہیں والی بات۔

مذہبی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں، سیاسی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں بھی غور فرمائیں۔ صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان بھی ٹی وی پر رمضان نشریات کے نام پر جاری بیہودگی اور دین کا تمسخر اڑانے کا نوٹس لیں اور پیمرا کو حکم دیں کہ ٹی وی چینلز کو پابند کریں کہ وہ بطور اسلامی نظریاتی ، مُلک، دین اسلام کے اصولوں کی پابندی کریں اور دین کا مذاق اڑانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :