انویسٹی گیشن بیورو سے راء تک۔۔۔

منگل 30 جون 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

بد نامِ زمانہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی راء 1969 میں وجود میں آئی۔ اس سے پہلے یہ کام انوسٹی گیشن بیورو نامی ایک ادارا کرت تھا، راء کے قیام کا بنیادی مقصدہمسایہ ممالک کی مخبری کرنا اور انکے خفیہ رازوں تک رسائی حا صل کر نا تھا۔ اس سارے عمل میں امریکہ کے لے پالک بچے ہندوستان کو امریکی سی۔آئی۔ اے اور یہودی خفیہ ایجنسی موساد کی مکمل حمایت حاصل تھے اور تا حال یہ حمایت حاصل ہے ۔

اور یہی وجہ ہے کہ خطے میں راء کے افعالِ مکروہء کے ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود عالمی اداروں کو عالمی قوانین اور عالمی حد بندیوں کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔
راء کی بنیاد ڈالنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ چین اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی جنگ میں بھارتی خفیہ ادارے غلط اندازے لگاتے رہے۔

(جاری ہے)

ہندوستانی خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق چینی تین دن تک ہندوستانی گولہ باری کا سامنا کر نے کے قابل تھے جو کہ بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔

جس پر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے جنگ میں ناکامی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس ادارے راء کی بنیاد ڈالی۔
اس وقت پر اندرا گاندھی نے ا ٓکر راء کیلئے بیس ملئین ڈالر کے فنڈز کی منظوری دی( یہ فنڈز سی۔ آئی۔ اے اور موساد سے ملنے والی امداد کے علاوہ تھی) ۔ پھر ایوی ایشن ریسرچ سنٹر کو راء کا حصہ بنا کر پاکستان اور چائنہ کیفضائی جاسوسی شروع کی گئی۔

۱۷۹۱ میں اس ادارے کی خدمات کے اعتراف میں اس کے فنڈز تیس ملئین ڈالرز تک بڑھادئیے گئے۔ اور اس طرح یہ ادارہ نہ صرف پڑوسیوں بلکہ پورے خطے کیلئے ایک ناسور بنتا چلا گیا۔
اس کے کتنے ڈیپارٹمنٹس ہیں، کتنے ملازم ہیں ، کوئی نہیں جانتا۔ البتہ اتنا معلوم ہوا کہ اس کا ہیڈ کواٹر نئی دہلی میں ہے جس کی سربراہی براہ راست بھارتی وزیرِاعظم کرتا ہے۔

ضلع گوڑھ کے ایک گاؤں مے اس کے تربیتی مراکز ہیں جہاں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے اور بعد میں ان تربیت یافتہ افراد کو انکے متعلقہ علاقوں میں ٹاسک دئیے جاتے ہیں۔
بھارتی مفادا دکئلئے کسی بھی قسم کے قوانین کی پر واہ کئے بغیر اندھا وار پیسہ بھایا جاتا ہے۔ ہندوستان کے مفادا کے حصول کیلئے متعلقہ حکا کو اپنے شیشے میں اتارنا ااور پھر ان سے اپنا کام نکلوانہ اس ادارے کا طریقئہ واردات ہے۔

اور اسی پالیسی پر عمل پکرتے ہوئے بھارت افغانستان میں کئی سالوں تک پاکستان کی مخالفت میں کام کرتا رہا ہیاور اور حقیقت تو یہ ہے کہ اھی تک کر رہا ہے ۔اس کے علاوہ سری لنکا میں بھی تامل باغیوں کو اس بدمعاش ادارے کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ ۵۱۰۲ میں سابق سری لنکن صدر راہندا جاپسکا کو بر طرف کرنے کیلئے بھی اس ایڑے چوٹی کا زور لگایا ۔ نیپال کا شاہی خاندان راء کا مرہونِ منت تھا اور جب اسخاندان نے اس کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو اس کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

علاوہ ازیں برما ، مالدیب اور بوٹان اس شیطانی ادارے کی خدمت کرتے رہے۔ جس کی سب سے بڑی دلیل خود ہندوستانی جنرل وی کے سنکھ نے اپنی کتاب بنام IRO Raw Experiences) میں دی اور اس حقیقت سے پردہ پوشی کی کہ بھارت امریکی ایجنسی سی۔ آئی ۔ اے کے ساتھ ملکر چائنہ اور اپا کستان کی جاسوسی کرتا رہا ہے ۔
صرف یہی نہیں جب پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی تیاری شروع کی تو اس نے اپنی غلیظ فطرت کے مطابق اسکی بھی جاسوسی شروع کر دی اور کہوٹہ کے گرد و نواح کے حجام سے لوگوں کے بالوں پر کر تحقیق کی (جس علاقے میں یورینئم افزودگی کی جائے وہاں کے مکینوں کے بالوں پر اس افزدگی کے اثرات پائے جاتے ہیں)۔

اس کے علاوہ ۱۷۹۱ میں پاکستان کو توڑنے میں حسبِ فطرت اپنا ابلیسانہ کردار ادا کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں وہاں کے اساتذہ کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ جس کے نتیجے میں اساتذہ نے طالبعلموں میں نفرت کے پیج بوئے اور نتیجتاََ مسلمانانِ پاکستان اور خود پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ جس کے ناقابلِ تردید ثبوت بھی موجود ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملو ں میں بھی راء امریکہ کی مکمل امداد کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ تا حٓل جاری و ساری ہے۔

مگر افسوس ناک بات یہ کہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر کسی عالمی ادارے نے کبھی بھی اس ہندوستانی بدمعاشی کانوٹس نہیں لے، کیونکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کو امریکہ بھادر اوراسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی حمایت حاصل ہے۔اور اگر یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو خطے حلات مزید بگڑیں گے جس ذمہ دار راء اور اس کے حمایتی ہوں گے۔ اور جہاں تک پاکستان میں مداخلت کا تعلق ہے تواس میں کوئی شک نہیں کہ راء ایک عرصہ دراز سے پاکستان میں علیدگی پسندوں کی حمایت اور دہشتگردوں کی مالی امداد کرتا رہا ہے لیکن اب وقت آچکا ہے کہ راء اس بات کا احساس کرلے اور اپنے افعالِ مکروہہ بند کرے اور یاد رکھے کہ افواجِ پاکستان اس کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :